• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1965میں سابق آرمی چیف ایوب خان ملک کے حکمران تھے۔جمہوری قوتیں ایوب خان کے اقتدار کے سخت خلاف تھیں۔ایوب خان کے مضبوط اقتدار کی بنیادیں ہلانے کے لئے سیاسی جماعتیں صف بندی کررہی تھیںکہ ستمبر کی ایک شام صدر پاکستان ایوب خان کا ہنگامی خطاب ریڈیو پاکستان پر نشر ہوا۔ایوب خان نے قوم کو پکارتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے اور شاید دشمن کو معلوم نہیں ہے کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے یہ تقریر قوم کی سماعتوں تک پہنچنے کی دیر تھی کہ تمام اختلافات پس پشت ڈال کر وطن عزیز کے بہادر سپوت بم باندھ کر دشمن ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے ۔یہ وہ جذبہ اور حب الوطنی تھی جس نے آمریت اور جمہوریت کی جنگ کو بھی کچھ عرصے کے لئے خاموش کردیا تھا۔پوری دنیا میں آزمودہ اصول ہے کہ جب جنگی صورتحال یا غیر معمولی حالات پیدا ہوتے ہیں تو پھر آپ اپوزیشن یا حکومت نہیں بلکہ ایک قوم ہوتے ہیں۔جنگی کشیدگی میں دنیا کے سامنے اپوزیشن اور حکومت کے دو متضاد موقف نہیں جاتے بلکہ ریاست کا ایک ہی پالیسی بیان جاتا ہے۔لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ذاتی مفادات ریاست سے بھی بالاتر ہوگئے ہیں۔دشمن بھی پاکستان کے وزیراعظم کو للکارتا ہے اور ہماری تحریک انصاف کے عمران خان بھی وزیراعظم کو للکارتے ہیں۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ للکارنے والا بھی پاکستانی اور للکارا جانے والا بھی پاکستانی۔آج میں کس کو دوش دوں جب صورتحال ایسی ہے کہ ہم تخریب سے خود اپنانشیمن پھونک رہے ہیں۔اسی صورتحال پر افریقی تاریخ کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔یوسف بن تاشفین اقتدار پر فائز تھے۔بربر قبائل کے خلاف افریقہ کے صحراؤں میں خیمہ زن تھے کہ اچانک انہیں بتایا گیا کہ امیر البحر ملنا چاہتے ہیں۔اجازت ملنے پر امیر البحر جب خیمے میں داخل ہوئے تو انہوں نے کہا کہ امیر ایک بری خبر ہے ۔اس پر یوسف بن تاشفین نے تاریخی فقرہ کہا تھا کہ "اس سے بری خبر او ر کیا ہوگی کہ میں امیر البحر کو صحرا میں دیکھ رہا ہوں"۔آج اس قوم کے لئے اس سے بری خبر کیا ہوگی کہ جس سیاسی رہنما نے مودی اور دہلی سرکار کو للکارنا تھا وہ زندہ دلان لاہور کے سامنے اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔مودی بھی پاکستان کی معیشت کو مفلوج کرنے کی بات کرتا ہے اور ہم بھی پاکستان کی معیشت کا پہیہ روکنے کی بات کررہے ہیں۔جب پاکستان کا دارالحکومت جام ہوگا،ایف بی آر ،اسٹاک مارکیٹیں ، آڈیٹر جنرل آفس سمیت دیگر ادارے نہیں کھل سکیں گے تو براہ راست نقصان معیشت پر پڑے گا۔حکومت پاکستان حالیہ کشیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر غور کررہی تھی۔تاکہ ریونیو میں اضافے سے معیشت کو فائدہ ہو۔دنیا بھر میں دیکھا گیا ہے کہ جنگی صورتحال میں ملک کی مسلح افواج کو وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور مضبوط معیشت ہی عسکری اداروں کو وسائل فراہم کرسکتی ہے۔جب پاکستان کا دارالحکومت ہی بند ہوگا تو پھرمعیشت کا اللہ ہی حافظ اور جب معیشت کمزور ہوگی تو پھر وسائل کم ہونگے اور وسائل کم ہونے کا سب سےز یادہ فائدہ دہلی سرکار کو ہوگا۔
عمرا ن خان صاحب کو سوچنا چاہئے کہ آج ملک بھر میں ایک تاثر شدت سے ابھر رہا ہے کہ شاید تحریک انصاف کے سربراہ اقتدار تک پہنچنے کی خواہش میں پاکستان کا نقصان کررہے ہیں۔خان صاحب کی حالیہ حکمت عملی نوازشریف کو نقصان پہنچائے نہ پہنچائے مگر مودی سرکار اس پر خوش ضرور ہورہے ہونگے۔عمران خان ایک پاکستانی ہیں۔کئی سالوں تک بھارت کے مقابلے میں وہ پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔بھارتی میدانوں پر انہوں نے بھارت کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے ۔انہیں کم ازکم اس تاثر کو زائل کرنا چاہئے اور حالیہ صورتحال میں ذاتی اختلاف پس پشت ڈال کر وزیراعظم او ر حکومت پاکستان کا سہارا بننا چاہئے۔بھارت آج ہمیں دنیا بھر میں تنہا کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔خطے میں ہماری تنہائی اور سارک کانفرنس کی منسوخی سب کے سامنے ہے۔پاکستانی قوم کو عمران خان کی شکل میں بہترین سفارتکار کی ضرورت ہے۔جو دنیا کی بااثر شخصیات کے سامنے حقائق بیان کرسکے مگر وہ بہت محدود سوچ رہا ہے۔تکلیف سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ خان صاحب کی سوچ میانوالی سے شروع ہوتی ہے اور اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر واقع وزیراعظم ہاؤس میں جا کر ختم ہوجاتی ہے۔جب آپ ذاتی اختلاف میں ریاست کا نقصان کرتے ہیں تو پھر ریاست آپ کے ساتھ وہ حشر کرتی ہے کہ تاریخ یاد رکھتی ہے۔مجھے تاریخ سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔جب تیرہویں صدی میں عباسی ایک مضبوط سلطنت کے مالک تھے ،ذاتی اختلافات کے باعث عباسیوں نے بادشاہ خوارزم شاہ کے بجائے چنگیز خان کی حمایت کی۔جب خوارزم شاہ کو شکست ہوگئی تو پھر چنگیز خان نے اس بغداد کو بھی گرادیا جسے عباسیوں نے آبادکیا تھا۔یہ محض ایک واقعہ ہے مگر اس میں بہت گہرا سبق موجود ہے کہ جب آپ حاکم وقت اور ریاست کے خلاف ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو عباسیوں اور بغداد کے ساتھ ہوا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بھارت ہی کی مثال لے لیں۔پچھلی چند دہائیوں میں کانگریس سب سے زیادہ ہندوستان کے اقتدار کی وارث رہی ہے۔ایک ایسی سیاسی جماعت جو قیام ہندوستان سے پہلے سے موجود ہے ۔کانگریس اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ایک دوسرے کی مخالف ترین سیاسی جماعتیںہیں۔مودی سرکار کے خلاف راہول گاندھی نے دہلی میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی ہیں مگر جب سے پاک بھارت کشیدگی پیدا ہوئی ہے سونیا گاندھی ،راہول گاندھی سمیت کانگریس کے کسی رہنما کا بھی اپنے وزیراعظم مودی اور حکومت وقت کے خلاف بیان سامنے نہیں آیا۔آج بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اپوزیشن کانگریس نہیں ہے بلکہ آج بھارت میں پوری لوک سبھا اور راج سبھا ایک قوم کی مانند کھڑی ہیں۔ان سب بالا واقعات سے ہماری خامیاں اور کمزوریاں واضح ہوتی ہیں۔ آج جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے رائیونڈ کا جلسہ کرکے اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہر ہ کردیا ہے۔سیاسی حلقے اس جلسے کو عمران خان کی جماعت کے لئے آکسیجن سمجھ رہے ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ ملک کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اپوزیشن کی سیاسی جماعت نے حکومت وقت کے خلاف تحریک شروع کی تو تحریک کے اختتام پر اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں حکومت وقت کے خلاف متحد ہوئیں۔مگر یہ پہلی دفعہ ہے کہ جب حکومت کے خلاف دو سال قبل تحریک شروع ہوئی تو اپوزیشن جماعتیں متحد تھیں اورتحریک انصاف کو حزب اختلاف کی مکمل حمایت حاصل تھی مگر شاہراہ دستور کے دھرنے سے لے کر رائیونڈ کے آخری جلسے تک صورتحال یہ بنی کہ تحریک انصاف اکیلی رہ گئی۔ عمران خان کو ان کے آخری اتحادی طاہر القادری بھی چھوڑگئے ۔عمران خان نے جس سیاسی جلسے کو حکومت کے خلاف آخری جلسہ قرار دیا ہے ۔اس میں اپوزیشن کی کوئی بڑی سیاسی جماعت ان کے ہمراہ نہیں تھی۔عمرا ن خان صاحب ! حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریکیں متحد ہوکر ہی کامیاب ہوئی ہیں۔نوابزادہ نصر اللہ سے لے کر بینظیر بھٹو تک تمام حقائق آپکے سامنے ہیں۔خدارا ! آج جہاںضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنی سیاسی حکمت عملی پر از سر نو غور کریں وہیں حالیہ حالات میں ذاتی مفادات کے بجائے قوم کے مفاد کو ترجیح دیں۔نوازشریف آج مسلم لیگ ن کے سربراہ نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ہمیں نوازشریف کا نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان کا دست وبازو بننا ہے۔تاکہ تاریخ ہمیشہ آپکو یاد رکھے۔

.
تازہ ترین