• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت دلچسپ گفتگو تھی ،ماں ایم بی بی ایس پاس کرنے والی اپنی بیٹی کو قائل کر رہی تھی کہ وہ بہتر مستقبل کےلئے پاکستان سے باہر چلی جائے، یہاں کیا رکھا ہے، کیوں اپنا کیرئیر تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہو،دیکھو تمہارے ساتھ ایم بی بی ایس کرنے والی نوے فیصد سہیلیاں باہر جا چکی ہیں ،ایک تم ہو کہ ملک اور قوم کی خدمت کا ٹھیکہ تم نے لے رکھا ہے۔ ڈاکٹر بیٹی نے تحمل سے اپنی والدہ کے دلائل سنے جو اس کے روشن مستقبل کے لئے بھیجنے کو تیار تھی۔ بیٹی نے فرماں برداری سے والدہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ امی اگر ہم سب اپنا ملک چھوڑ کر بیرون ممالک چلے جائیں گے تو یہاں کون رہے گا، ایمرجنسی میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا زندگیوں کو بچانے کے لئے مسیحا کہاں سے آئے گا۔ حکومت ہمیں ڈاکٹر بنانے پر فی کس 25 لاکھ روپے کیا اس لئے خرچ کرتی ہے کہ ہم امریکہ کا ایم ایل ای (میڈیکل لائسنس شور ایگزامینیشن) برطانیہ کا پلیب ( پروفیشنل اینڈ لینگواسٹک ایسیسمنٹس بورڈ) اور آسٹریلیا کا اے ایم سی ( آسٹریلین میڈیکل کونسل) ٹیسٹ پاس کریں اور ان ممالک میں جا کر ہمیشہ کے لئے صرف اس لے سیٹل ہوجائیں، ریزیڈنسی حاصل کرلیں کہ ہمیں پیسہ اور ایک پرتعیش زندگی چاہئیے۔ نہیں امی میں اپنے وطن کی خدمت کروں گی۔ اس تمہید کا مقصد اس بحران کی نشان دہی کرنا ہے جو بہت جلد پیدا ہونے والا ہے اور اگر بر وقت اقدامات نہ کئے گئے اور توجہ نہ دی گئی تو پاکستان نوجوان ڈاکٹروں سے بہت حد تک محروم ہو جائے گا۔پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے جس میں ہر سال 2 ہزار ڈاکٹرز پاس آؤٹ ہوتے ہیں۔دیگر صوبوں میں یہ تعداد کم ہے۔ ایم بی بی ایس کے بعد ان ڈاکٹرز کو ایک سال کے لئے ہاؤس جاب کرنا ہوتی ہے۔اس دوران انہیں ماہانہ مشاہرہ 28 ہزار روپے دیا جا رہا ہے،ینگ ڈاکٹرز کے شدید احتجاج سے قبل یہ 24 ہزار روپے تھا۔ہاؤس جاب کے دوران ایک ڈاکٹر کا حال وہی ہوتا ہے جو کسی بھی ادارے میں کام کرنے والے ایک ٹرینی کا ہوتا ہے۔طویل دورانیے کی ڈیوٹی اور گائنی وارڈ جیسی جگہوں پر تو اسے 32 گھنٹے تک مسلسل بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ ہاؤس جاب کے بعد پبلک سروس کمیشن کے ذریعے گریڈ 17 میں میڈیکل آفیسر یا ویمن میڈیکل آفیسر بھرتی ہونے کے مواقع ہوتے ہیں لیکن محدود نشستوں کی وجہ سے بہت کم ڈاکٹرز اس میں جگہ حاصل کر سکتے ہیں۔ میڈیکل آفیسر کی تنخواہ ستاون ہزار نو سو روپے ماہوار ہے جبکہ اگر دیہی علاقے میں کوئی ڈاکٹر جانے کی قربانی دے تو اسے پچاسی ہزار روپے تنخواہ کی مد میں ملتے ہیں۔ میڈیکل آفیسر بھرتی نہ ہونے والے ڈاکٹرز کے پاس نجی کلینک بنانے(اگر صاحب استطاعت ہو) یا کسی نجی اسپتال میں ملازمت کرنے کے مواقع بچتے ہیں۔ یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ میڈیکل کالجوں کی نشستوں پرلڑکیوں کا تناسب لڑکوں سے دگنا ہے ،اس طرح لڑکیوں کی اکثریت پاس آوٹ ہونے کے بعد معاشرتی سیٹ اپ کے باعث فیلڈ میں نہیں آتی جبکہ موجودہ صورتحال میں ینگ میل ڈاکٹرز کے ساتھ فی میل ڈاکٹرز بھی بیرون ممالک کے ٹسٹ دے کر پاکستان چھوڑنے کوترجیح دے رہی ہیں۔ رہی سہی کسر دہشت گردی کے واقعات،ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں نے پوری کردی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2010 سے اب تک 57 ڈاکٹروں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ پہلے زیادہ تر ڈاکٹرزفرقہ وارانہ بنیادوں پرقتل ہوتے تھے تاہم اب بھتے کی پرچیوں کے عوض بھی ڈاکٹرز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ شفا دینے والے ہاتھ اپنے تحفظ کے لئے اسلحہ مانگ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ہو یہ رہا ہے کہ ایم بی بی ایس کے دوران میڈیکل کے طلبا و طالبات امریکی ٹیسٹ ایم ایل ای کے دو پارٹس آن لائن پاس کرلیتے ہیں،اس پر صرف چودہ سے بیس ہزار روپے صرف ہوتے ہیں،ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے کے بعد پاس آوٹ ہونے والوں کی بڑی تعداد تیسرا اورآخری پارٹ کرکے ڈاکٹریٹ آف میڈیسن کا سرٹیفکیٹ لے لیتی ہے۔یہ سرٹیفکیٹ وہ پروانہ ہوتا ہے جس کے بعد ان پر دنیا بھر بلخصوص امریکہ میں ریزیڈنسی کے ساتھ ایک روشن مستقبل کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ اپنے وطن کو خیر آباد کہہ جاتے ہیں۔ اسی طرح متعدد ینگ ڈاکٹرز برطانیہ کا پلیب اور آسٹریلیا کا اے ایم سی پاس کر کے ان ممالک کا رخ کررہے ہیں،پاکستانی ڈاکٹرز کی خلیجی ممالک میں بھی بہت زیادہ مانگ ہے جبکہ کنسلٹنٹس کو تو ان ممالک میں ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہاہے۔ صرف گزشتہ ایک سا کا ڈیٹا دیکھا جائے تو ایم بی بی ایس کرنے والوں کی پچاس فیصد سے زیادہ تعداد بیرون ممالک منتقل ہوچکی ہے۔ڈاکٹروں کی اس تیزی کے ساتھ بیرون ممالک روانگی سے ملک میں پہلے سے بد حال شعبہ صحت کی حالت زار مزید دگر گوں ہو رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں تو پہلے ہی ڈاکٹر موجود نہیں ہیں ،اب شہر کے اسپتالوں میں بھی ینگ ڈاکٹروں کی قلت ہے۔ایمرجنسی میں میڈیکل آفسرڈھونڈنے سے نہیں ملتے یہی وجہ ہے کہ ایمرجنسی میں متعدد مریض بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ کنسلٹنٹس اور سرجنز پر اتنا دباو ہے کہ انہیں درجنوں مریضوں کے چیک اپ کیساتھ بروقت کئی آپریشن کرنا پڑتے ہیں۔عالمی معیار کے مطابق ایک کنسلٹنٹ ایک دن میں صرف دو مریض دیکھ سکتا ہے۔ امریکہ میں تو دو سے زیادہ مریض دیکھنے پر پابندی عائد ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں صرف پنجاب میں سولہ سو مریضوں کے لئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے جبکہ پسماندہ صوبوں میں تو ہزاروں مریضوں کے حصے میں صرف ایک ڈاکٹر آتا ہے۔ جبکہ سرکاری اسپتالوں میں نہ مشینیں ہیں،نہ آلات۔ ڈاکٹرز کی کمی کہ بڑی وجہ میڈیکل کالجز کی محدود تعداد بھی ہے،ہمسایہ ملک بھارت سے موازنہ کریں تو وہاں ایک سو بارہ میڈیکل کالج ہیں جبکہ ہمارے ملک میں صرف ایک درجن۔ بھارت میں ہاوس جاب کرنے والے کو پچاسی ہزار روپے ماہوار دیئے جاتے ہیں۔بھارت میڈیکل کے شعبے میں اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ ایم بی بی ایس کے نصاب میں کچھ کتابیں ایسی بھی ہیں جن کے مصنف بھارتی ہیں۔ ہمارے ملک میں صحت کے بجٹ کی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کا سالانہ بجٹ چوبیس ارب روپے ہے جبکہ اسکے مقابلے میں نجی شعبے میں قائم صرف آغا خان اسپتال کا سالانہ بجٹ نناوے ارب روپے ہے۔موجودہ وزیر اعلی پنجاب کے دور میں ینگ ڈاکٹرز نے ملکی تاریخ کی طویل ترین ہڑتال کی تو متعدد ڈاکٹرز کو برطرف کر کے ان کی جگہ نئی بھرتیاں کرلی گئیں۔ ینگ ڈاکٹرز نے جو مطالبات پیش کئے ان میں سے کئی تاحال حل طلب ہیں۔ ڈاکٹرز آج بھی سروس اسٹرکچر پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اب ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات پورے کرنا تو ایک طرف سب سے اہم مسئلہ اس برین ڈرین کو روکنا ہے۔
حکومت سے گزارش ہے کہ چاہے میٹرو بنائے یا بلٹ ٹرین منصوبہ شروع کرے لیکن مستقبل قریب میں سر اٹھانے والے اس انتہائی اہم مسئلے یعنی ینگ ڈاکٹروں کی بیرون ممالک روانگی کو روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرے،میڈیکل کالجوں ،اسپتالوں اور میڈیکل آفیسرز کی آسامیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے،ڈاکٹرز کو مارکیٹ کے مطابق تنخواہ اور مراعات دی جائیں،ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے جبکہ مسلح افواج کی طرح ڈاکٹرز کو پابند بنایا کیاجائے کہ وہ ایک مخصوص عرصہ پبلک سروس میں خدمات انجام دینے کے بعد ہی ملازمت یا اسپیشلائزیشن کرنے جاسکتے ہیں۔ میری نوجوان ڈاکٹروں سے بھی اپیل ہے کہ یقینا بہتر مستقبل کا حصول ان کا حق ہے لیکن جس ملک نے انہیں عزت دی ،شناخت دی اور مسیحا کا اعزاز دیا وہ اس ملک اور اسکے غریب عوام کی خدمت نہیں کر سکتے تو کم از کم اسے وہ ضرور لوٹائیں جو انہیں اس ملک نے دیا ہے۔
تازہ ترین