• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاسی تاریخ اور جرم ایک ساتھ چلتے رہے ہیں۔ پاکستان کے بانیان میں شامل پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان بھی قتل کئے گئے اور ایک وزیر اعظم کو عدالتی حکم کے ذریعے تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ ایک اور وزیر اعظم کو بم دھماکے میں قتل کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اکابرین کے قتل کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے بد امنی نے اپنے مہیب سائے سایہ فگن کئے ہوئے ہیں۔ گزشتہ پچیس برس سے پاکستان رینجرز بھی اس شہر میں تعینات ہے لیکن وہ بھی مثبت تبدیلی لانے میں تاحال ناکام نظر آتی ہے۔ ربع صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی پاکستان کے نیم فوجی دستے شہر کو امن نہ دے سکے ۔ لاکھ تاویلیں پیش کی جائیں لیکن ایک سچائی ہے کہ وہ اس شہر میں موجود ہیں اور صوبے کے بجٹ کا ایک خطیر حصہ ان پر خرچ ہوتا ہے۔
حال ہی میں ایک اور مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ جسے عام طور پر JITکہا جاتا ہے، منظر عام پر آئی۔ یہ رپورٹ ستمبر 2012ء میں علی انٹرپرائزز ٹیکسٹائل فرم میں لگنے والی آگ اور اس کربناک سانحے میں 257افراد کی موت کے حوالے سے ہے جو جھلس کر ہلاک ہوئے۔ اس سے قبل پاکستان کے تحقیقاتی اداروں نے کئی انکشافات کئے ۔ ایک طویل رپورٹ بے نظیر بھٹو کے قتل پر دستیاب ہے جس کے ساتھ ساتھ خان لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ تیار کی گئی اور جس افسر نے وہ رپورٹ تیار کی، وہ اس رپورٹ کے ساتھ ہی فضائی حادثے میں مارا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور بالآخر کراچی کے امن کو درست کرنے کے لئے کئی JITsتیار کی گئیں جس میں 90ء کی دہائی میں سیاسی جماعت کے کارکنان سے اعترافی بیانات حاصل کئے گئے۔ ان کو بنیاد بناکر کئی مقدمات عدالتوں میں دائر کئے گئے اور یہ JITsنامزد ملزمان کو مجرم ثابت کرنے میں ناکام ہوئیں۔ ماضی میں ایم کیو ایم کے کارکن اجمل پر بھی ایک فصیح و بلیغ قسم کی JITتیار کی گئی تھی جو کئی سال گزر جانے کے باوجود JITکی شکل میں ہی موجود ہے۔ کسی عدالت میں ثابت نہ کی جاسکی۔ بالکل اسی طرح بلدیہ کے حادثے پر تیار کی جانے والی JITبھی بہت سے نقائص سے پر ہے۔ حتمی فیصلہ تو ہماری عدالتیں کریں گی۔ اس رپورٹ کا مرکزی ہیرو رضوان قریشی نامی شخص ہے جسے ایم کیو ایم کا کارکن بتایا گیا ہے لیکن انتہائی حیرت انگیز امر یہ ہے کہ رضوان قریشی نے نہ تو فیکٹری کو آگ لگائی ، نہ ہی بھتہ وصول کیا ، نہ ہی مقدمہ ختم کرایا اور نہ ہی فیکٹری مالکان کی ضمانت کروائی بلکہ یہ صرف اور صرف ایک راوی ہے جس نے اس پورے واقعے کی منظر کشی پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے مبینہ طور پر کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ راوی کے مطابق ماجد نامی شخص نے اپنے بھائی کے ہمراہ فیکٹری مالکان سے 20کروڑ روپے کا بھتہ طلب کیا۔ انکار پر کسی اور ایم کیو ایم کے ذمہ دار جس کا نام بھولا بتایا گیا ہے کے کہنے پر کسی چوتھے شخص نے اس فیکٹری کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں 257افراد لقمہ اجل بنے اور یقینا قارئین کو اس پر بھی حیرت ہوگی کہ ماجد اور اس کا بھائی ضمانت پر رِہا ہیں۔ ہمارے ملک کے معزز و محترم تجزیہ نگاروں نے یہ سوال اٹھانے کی زحمت نہیں کی کہ ایک ایسا شخص جو اتنی سنگین واردات میں ملوث ہے وہ کیسے ضمانت پر رہا ہوگیا؟ جبکہ رضوان قریشی کو اس واقعے کا مرکزی کردار قرار دے دیا گیا اور اس شخص کے کہنے پر جو رپورٹ تیار کی گئی، اس کے مطابق بھی جو لوگ اس واقعے میں ملوث تھے وہ سردست رِہا ہیں۔
سوا ل یہ اُٹھتا ہے کہ اس رپورٹ کے بارے میں قلم آرائی کرنے والوں نے کیا اس رپورٹ کا مطالعہ کیا تھا؟ یقینا نہیں کیا تھا کیونکہ ہمارے بعض محترم کالم نگاروں نے یہاں تک لکھ دیا کہ ایم کیو ایم کے کسی ذمہ دار نے 15کروڑ روپے لے کر اس مقدمے کو ختم کروایا جبکہ رضوان قریشی کے مطابق جو مرکزی کردار ہے، 15کروڑ روپے سابق وزیر اعظم پاکستان کے کسی مبینہ فرنٹ مین نے لئے تھے اور اس کے عوض فیکٹری مالکان کی ضمانت کروائی اور ان کے مقدمے کو سرے سے ختم کروادیا۔ بالکل اسی طرح ہمارے لکھنے والے آج تک 12مئی کا نوحہ لکھتے لکھتے ان کے قلم نہیں تھکتے لیکن وہ اس بات پر کیوں قلم نہیں اٹھاتے کہ وہ ہیرو جو وکلاء تحریک میں جہاندیدہ سابق چیف جسٹس کے ساتھ تھے وہ آج ان پر نکتہ چیں کیوں ہیں۔ وہ ان کو آڑے ہاتھوں کیوں لیتے ہیں؟ یہاں ایک بار پھر واضح ہو کہ 12مئی 2007ء کی جو ریلی تھی، اس کی مخالفت میں ایم کیو ایم سمیت کسی سیاسی جماعت نے کوئی بیان نہیں دیا ۔ ہاں، البتہ ایم کیو ایم سمیت کچھ جماعتیں اس بات کی مخالف تھیں کہ معزول چیف جسٹس ایک آئینی ادارے کے سربراہ ہیں اور وہ کسی سیاسی گہوارے میں بیٹھ کر خطاب کرنے آئیں ۔ بار سے خطاب کرنا ان کا حق ہے۔ وہ ائیرپورٹ سے ایک محفوظ راستے سے گزر کر بار پہنچیں۔ خطاب کریں اور اپنی دیگر سرگرمیوں کو جاری رکھیں لیکن اس وقت کے وکلاء رہنما اور چیف جسٹس بضد تھے کہ ایک سیاسی جلوس کے ساتھ ہی وہ بار پہنچیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ 12مئی کو ایم کیو ایم کے علاوہ جن سیاسی جماعتوں نے عوامی ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا، وہ ریلیاں کہاں تھیں۔ سڑکوں پر صرف ایک ہی جماعت کی سیاسی ریلی تھی جس کا دعویٰ ہے کہ اس کے 14کارکنان قتل کئے گئے۔ جہاں دیگر لوگ مارے گئے، وہاں یہ 14انسان بھی تو قتل کئے گئے تھے۔ تحقیقات جرم کی ہونی چاہیئے نہ کہ کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ پاکستان میں جب جب سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگایا گیا، اس کا نقصان ریاست پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ کل طاقت کے بل پر نیشنل پیپلز پارٹی بنا کر پیپلز پارٹی کی طاقت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن آج ایک بار پھر پیپلزپارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی میں انضمام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ لہٰذا کالم نگار ہوں یا تجزیہ نگار، ان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ایسے معاملات جو عدالتوں کے زیر غور ہوں یا تو وہ زیر بحث نہ لائیں اور اگر لائیں تو پھر انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں جانب کی باتیں ہونی چاہئیں۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ رپورٹ بنا کر قانون نافذ کرنے والے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں اور حالات کی خرابی و سنگینی کا سارا ملبہ عدالتی نظام پر لاد دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنے والے نقائص سے پر اس رپورٹ کے بجائے ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر چالان عدالتوں میں پیش کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ حالات میں بہتری نہ آتی اور فوجی عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اربابِ اقتدار نیم فوجی دستوں کی کراچی میں تعیناتی اور کارکردگی کا جائزہ لیں اور انہیں محدود مدت میں اپنی کارروائی مکمل کرنے کا ٹاسک دیتے ہوئے واپس بھیجنے کی راہ ہموار کریں۔ ضروری ہے کہ تمام جماعتوں میں موجود ناپسندیدہ عناصر کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ ماورائے عدالت قتل جیسے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لئے ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ ریاستی اداروں پر سیاسی جماعتوں اور عوام کا اعتماد قائم ہوسکے۔
تازہ ترین