• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم کی زیرصدارت ایک طرف صوبائی دارالحکومتوں میں ایپکس کمیٹیوں کے اجلاس تواتر سے جاری ہیں تو دوسری طرف دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صرف بیس دنوں میں شکار پور،پشاور،لاہور اور جڑواں شہروں کے سنگم میں دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیل کر ریاستی اداروں کو واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی مشکلات اتنی آسانی سے ختم ہونے والی نہیں ہیں۔آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم توڑنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں قوم کے ایک اور سپوت میجر زاہد کی شہادت بتا رہی ہے کہ پاک فوج کے جوانوں کو دھرتی ماں کی حفاظت کے لئے اپنے خون سے ابھی اور آبیاری کرنا ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے جا رہے ہیں، یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہو رہا ہے کہ اس بار پالیسی یا ایکشن پلان بنا کر اسے شیلف کی نذر نہیں کیا گیا بلکہ پہلی بار وزیر اعظم، عسکری قیادت کے ہمراہ خود قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کی نگرانی کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان یہ ہم آہنگی بہت سوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔اس لئے کبھی اسےسافٹ کو کا نام دیا جاتا ہے توکبھی یہ طعنے دئیے جاتے ہیں کہ دفاع کے ساتھ اب خارجہ پالیسی بھی عسکری حکام کے حوالے کر دی گئی ہے۔قومی ایکشن پلان پرعمل درآمد کی نگرانی کا نتیجہ ہے کہ سندھ حکومت کی کارکردگی پر اعتراض اٹھائے گئے ہیں اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سندھ پولیس کو سیاست سے پاک کرنے اوربھرتی و تقرری میں ایپکس کمیٹی کے کردار کی بات کی ہے۔ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کسی نے اس تجویز پر چوں چراں نہ کی لیکن دو دن گزرے تو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو خیال آیا کہ اس سے تو کئی لوگوں کی روزی روٹی پر حرف آئے گا اسلئےبول اٹھے کہ ایپکس کمیٹیوں کا کام حکومتیں چلانا نہیں ہے ،انہوں نے تو مجوزہ عمل کے ذریعے پولیس میں بھرتی شروع کرنے پر خطرناک نتائج کی دھمکی تک دے ڈالی ہے، یہ پہلی بار نہیں ہوا،ماضی میں بھی جب کراچی میں امن و امان کے قیام کے سلسلے میں وزیر اعظم نواز شریف نے سندھ پولیس میں اصلاحات، آلات کی خریداری اور اہم پوسٹوں پر تقرری کے بارے میں سوالات اٹھائے تھے توخود سابق صدر آصف علی زرداری نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے صوبائی خود مختاری پر کاری ضرب لگانے کے مترادف قرار دیا تھا۔ سندھ پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ کے بارے میں تو سپریم کورٹ بھی مختلف مقدمات میں تنبیہ کر چکی ہے لیکن جس نے نہ سدھر نا ہو اس کیلئے بہانے سو۔ بات طویل ہوگئی، اصل موضوع دہشت گردی سے جڑا ایک منفرد نوعیت کا پہلو ہے جو کسی بھی جگہ دہشت گردی کا واقعہ رونما ہونے کے بعد سامنے آتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جیسے ہی دہشت گردی کی مذموم کارروائی ہوتی ہے، ساتھ ہی نہ ختم ہونے والے مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ڈ کشنری میں مذمت کیلئے استعمال ہونیو الے انگریزی لفظ ؛کونڈولینس ؛ کا مفہوم کچھ اس طرح دیا گیا ہے کہ مذ مت، رحم دلی کے اس احساس کا اظہار ہوتا ہے جو اس متاثرہ شخص سے کیا جاتا ہے جو کسی قریبی عزیز کی موت کی تکلیف سے درد کا شکار ہو، کسی ذہنی کرب سے گزر رہا ہو یاکسی بد قسمتی سے دوچار ہوا ہو۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب انفرادی حیثیت میں کسی مخصوص صورتحال پر یا فرد سے اظہار مذمت کیا جاتا ہے تو اسکا مقصد متاثرہ فرد کو یہ احساس دلانا ہوتا ہے کہ مذمت کرنے والا اس کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ ڈکشنری میں مذمت کے اظہار کے مختلف طریقے بیان کئے گئے ہیں جن میں متعلقہ شخص کی طرف سے رقم کو خیرات کرنا،مذمتی کتاب میں اپنے تاثرات قلمبند کرنا اور متعلقہ شخص کے اہلخانہ یا قریبی افراد کی کفالت اور مدد کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
اب ذکرکرتا ہوں کہ ہمارے ہاں دہشتگردی کے واقعات پر مذ مت کیسے کی جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتے امام بارگاہ قصر سکینہ میں دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ ہوا،ابھی حملے کی تفصیلات بھی پوری طرح سامنے نہیں آئی تھیں کہ معمول کی طرح وزیر اعظم ہاوس کے ترجمان نے واٹس ایپ کے ذریعے وزیر اعظم کی طرف سے مذمت کا پیغام جاری کردیا۔ صرف تاریخ اور مقام کی تبدیلی کے ساتھ مذمتی بیان انہی الفاظ پر مشتمل تھا جو دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد استعمال کئے جاتے ہیں۔ ادھر جب یہ مذمتی بیان جاری کیا گیا وزیر اعظم صاحب ،بلوچستان میں پاسنگ آوٹ پریڈ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ وزیر اعظم کی طرف سے مذمت ہو تو بھلا صدر صاحب کے ترجمان کہاں پیچھے رہنے والے تھے ،انہوں نے بھی باقاعدہ ٹکرز کی شکل میں اردو میں ٹائپ کیا ہوا مذمتی بیان جاری کیا۔ ابھی صدر مملکت کی واقعے پر دلی مذمت آن ائیر نہ ہو پائی تھی کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کے ترجمان کا مذمتی بیان بذریعہ ایس ایم ایس موصول ہو جاتا ہے۔ ابھی یہ ٹکرز ٹائپ نہیں ہوپائے تھے کہ چیئرمین سینیٹ کا مذمتی بیان ایک پریس ریلیز کی شکل میں بذریعہ فیکس ملتا ہے ،ساتھ ہی ٹیکسٹ میسج کے ذریعے پی آر او فرمائش کرتے ہیں کہ ان کے باس کی مذمت ان کے پورے نام کے ساتھ چلا دیں بھلے اس وقت چیئرمین سینیٹ غیر ملکی دورے کیلئے محو پرواز ہی کیوں نہ ہوں۔ دہشت گردی کے شکار افراد بے شک خون میں لت پت جائے وقوعہ پر ہی پڑے ہوں ،مذمتی بیانات چلوانے والوں کی کالز اور میسجز کا تانتا بندھ جاتا ہے،فیکس مشین بھی دھڑا دھڑ مذمتی بیانات کی پریس ریلیزیں اگلنا شروع ہو جاتی ہے۔ڈیسک پربیٹھا اسائمنٹ ایڈیٹر پریشان ہو جاتا ہے کہ وہ دھماکے کی تفصیلات کے ٹکرز دے یا ان مذمت کرنے والوں کے نام چلوائے کیوں کہ مذمت سے زیادہ یہ نام چلنے کی فکر ہوتی ہے۔وزراء کے بعد سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور سینئر رہنماؤں کے پرسنل سیکرٹریز کی باری شروع ہو جاتی ہے ،ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے صاحب کا نام فوری مذمت کرنے والوں کی فہرست میں ٹیلی کاسٹ ہوجائے۔اسی طرح ارکان پارلیمنٹ ،حتی کہ مقامی رہنماؤں کے ٹیلی فون آنا شروع ہو جاتے ہیں، ہر کوئی صرف اپنا نام چلوانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اس دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ وزیر اعلی پنجاب کا مذمتی بیان ٹیلی کاسٹ ہوتا دیکھ کروزیر اعلی سندھ کے شعبہ میڈیا سے ایک افسر کی کال آئی،بولے کہ وزیر اعلی پنجاب کی مذمت چل رہی توسائیں کی بھی چلا دیں نا۔ابھی ذہن میں سائیں کے مذمتی جملے ہی ترتیب دیئے جارہے تھے کہ موبائل پھر بج اٹھا، دوسری طرف اسپیکر قومی اسمبلی کے ڈائریکٹر پروٹوکول اور میرے دوست تھے ،ان کے بولنے سے پہلے ہی میں نے کہا کہ آپ نے بھی مذمت چلوانی ہے،مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یار بس فوری چلوا دو۔ میں نے کہا بے فکر ہو جائیں جناب، ابھی ٹکرز ترتیب دئیے جا رہے تھے کہ دوبارہ کال آ گئی ،اس بار اسپیکر قومی اسمبلی کی ڈائریکٹر میڈیا تھیں ،بہت تیزی سے بولیں اسپیکر صاحب کی طرف سے مذمت تو چلوا دو ، میں نے کہا میں نے بتایا کہ میڈم آپ سے پہلےبھی فون آ چکا ہے مذمت چلوانے کا، حیران ہوئیں کہ ہیں، وہ کس نے کیا میں نے جواب دیا کہ ڈائریکٹر پروٹوکول نے، فوری بولیں کہ پلیز تم میری مذمت چلوانا،اس کی نہیں۔اس بار حیران ہونے کی باری میری تھی،میں نے کہا آپ کی مذمت سے کیا مطلب تووضاحت کی کہ مذمت چلانے کا کریڈٹ انہیں ملنا چاہئے اورفون بند کردیا۔ میں موبائل ہاتھ میں تھامے سوچنے لگ گیا کہ امام بارگاہ قصر سکینہ کے شہید غلام حسین کے لواحقین کواسپیکر قومی اسمبلی کی وہ مذمت چاہئے جو ڈائریکٹر پروٹوکول نے کہی یا خون کے آنسو روتے لواحقین کو وہ مذمت درکار ہے جو جو ڈائریکٹر میڈیا نے دی۔
تازہ ترین