• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی ملک میں مستقبل کی اقتصادی ترقیاتی فلاحی اور تعلیمی منصوبہ بندی کے لئے مردم شماری کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے کسی بھی حکومت نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کی۔ سپریم کورٹ کئی بار اس جانب توجہ دلا چکی ہے ۔ اس معاملے میں غیر ضروری تاخیر پر اسےاز خود نوٹس لینا پڑا منگل کو اس کی سماعت کے دوران جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مردم شماری کے متعلق حکومت کا دیا گیا ٹائم فریم مسترد کر دیا اور یہ کام جنگی بنیادوں پر کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس مقصد کے لئے اساتذہ کی تربیت ابھی سے شروع کردینی چاہئے فاضل عدالت کا کہنا تھا کہ یہ پتہ مردم شماری سے ہی چلے گا کہ ہمیں کتنے ہسپتالوں اور کتنے تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے کتنے بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں کس صوبے کی کتنی آبادی ہے اور قومی وسائل میں اس کا حصہ کتنا ہے ہیپاٹائٹس سی یا ذیابیطس کے کتنے مریض ہیں اور علاج معالجے کی کونسی سہولتیں موجود ہیں یہ کام فوری کرنے کا ہے لیکن حکومتی ادارے تاریخ پر تاریخ دیئے جا رہے ہیں آئندہ سماعت پر جواب داخل کیا جائے کہ وفاقی حکومت کو مردم شماری کے لئے فوجی اہلکار کب دستیاب ہوں گے متعلقہ محکموں کو مردم شماری میں درپیش مشکلات کی نشاندہی کرنا ہو گی کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے ڈی جی شماریات نے بتایا کہ فوجی عملہ ممکنہ طور پر نومبر یا دسمبر میں دستیاب ہو گا جبکہ اٹارنی جنرل نے مردم شماری کا آغاز مارچ 2017ء میں کرانے کی یقین دہانی کرائی یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ مردم شماری پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہو چکی ہے حکومت کو چاہئے کہ باقی دنیا میں جو سسٹم رائج ہیں انہیں بھی دیکھے اور نادرا کے ذریعے خود کار نظام متعارف کرانے سمیت تمام طریقوں پر غور کرے تا کہ مردم شماری آئینی تقاضوں کے مطابق ہر دس سال بعد کرائی جاتی رہے۔

.
تازہ ترین