• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئے روز جھوٹ ، بہتان اور غیبت کا بازار گرم کرنے اور چسکوں اور مصالحوں بھری محفلیں سجا کر پگڑیاں اچھالنے والوں کو یہ ارشادِ باری تعالیٰ بھی یاد نہ رہا کہ ’’ اے ایمان والو اگر کوئی تمہارے پاس خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو اور جس بات کا یقینی علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑنا ، یاد رکھو روزِ قیامت رائی برابر نیکی اور ذرہ برابر برائی کی بھی پوچھ ہو گی ‘‘ اور سب رسولِ ؐ خُدا کا یہ فرمان بھی بُھلا بیٹھے کہ ’’ جھوٹاکبھی مومن نہیں ہو سکتا اور غیبت گناہِ کبیرہ ‘‘۔
سمجھ نہ آئے کہ بات شروع کہاں سے کروں ، میڈیا نے کسے گھائل نہ کیا ، کس کا سکون نہ چھینااور کس کی نیندیں حرام نہ کیں، درجنوں کہانیاں،بیسوئوں قصے اور سینکڑوں واقعات !
ہیلری کلنٹن لکھتی ہیں ’’ لندن میں مٹر گشت کرتے میں اور چیلسی (بیٹی ) ایک ہوٹل کے سامنے رش دیکھ کر رُکے تو پتا چلا کہ پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو آنے والی اور سب انہیں دیکھنے کے لئے جمع ، میں اور چیلسی بھی لائن میں لگ گئیں، تھوڑی دیر بعد چند گاڑیاں آ کر رُکیں ، ایک گاڑی سے زردسوٹ میں ملبوس بے نظیر بھٹو نکلیں اور بڑے با وقار انداز میں چلتے ہوئے اندر چلی گئیں ، وہ اُس دن کما ل خوبصورت لگ رہی تھیں‘‘ ہیلری نے آگے چل کر بے نظیر بھٹو سے ملاقاتوں اور ان کے خاندان سے اپنے تعلقات کا لکھ کر بڑے دُکھ سے یہ بھی بتایا کہ ’’ دو دفعہ وزیر اعظم بننے اور دونوں دفعہ وقت سے پہلے گھر بھجوا دی جانے والی بے نظیر بھٹو نے ایک بار انتہائی غمزدہ لہجے میں مجھے کہا کہ ’’ مجھے اتنا افسوس کبھی وزارتِ عظمیٰ کے چھن جانے کا نہیں ہوا جتنا دُکھ مجھے میڈیا ٹرائل کے ذریعے اپنی کردار کشی پر ہوا‘‘۔
مجھے وہ دن بھی یاد کہ جب اپنے ایک وزیر اعظم کے ذاتی کردار کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تو صبح صبح انتہائی غصے میں اپنے میڈیا منیجرز کوجھاڑنے، دوپہرکو متعلقہ اخبار کے مالک اور ایڈیٹر کو فون کر کے دل کی بھڑاس نکالنے اورسہ پہر کو اطلاعات اور قانون کے وزیروں کو بلا کر ہتکِ عزت کے نوٹس سمیت متعدد آپشنز Discussکر چکے وزیر اعظم جب شام سے ذرا پہلے فائلیں چیک کرنے میں مگن تھے تودفتر کا دروازہ کُھلا اور ان کی بیٹی اندر داخل ہوئی،یوں اچانک ہاتھ میں اخبارپکڑے بیٹی کو اپنے سامنے دیکھ کر وزیرا عظم ہڑ بڑا کر اُٹھے، آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگایا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی بڑے پیار سے اپنے ساتھ صوفے پربٹھا کر چند اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اسے صحافتی بلیک میلنگ پر ایک لمبا سا لیکچر دینے اور اپنے مخالفین کے عزائم بتاتے بتاتے غیر محسوس طریقے سے اپنی صفائیاں دینے والے وزیراعظم بیٹی کو اسکی پسندیدہ آئس کریم کھلا کر جب دروازے تک چھوڑ کر واپس اپنی کرسی پر بیٹھے تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسوبہہ نکلے اورپھر بہتے آنسوئوں میں وہ انتہائی بے بسی سے بولے ’’ کاش بیٹی کو یقین آ جائے کہ یہ خبر جھوٹی اور میں بے قصور‘‘۔
مجھے وہ دوپہربھی نہ بھولے کہ جب بے وقوف دوستوں اور عقلمند دشمنوں میں گھرے ایک بڑے صاحب کے بارے میں ایک ٹی وی چینل نے کرپشن اور خواتین سے تعلقات کے حوالے سے مرچ مصالحوں والی رپورٹ مسلسل دو ڈھائی گھنٹے دکھائی تو اسی شام ان کی بیٹی کے رشتے کے لئے آنے والی فیملی نے معذرت کر لی اور پھر اگلے کئی دنوں تک یہ صاحب اپنی بیٹی سے نظریں چراتے رہے ۔
مجھے مشرف دور کے طاقتورترین بیوروکریٹ کی زندگی کی وہ خوفناک راتیں بھی یاد کہ جب پرنٹ میڈیا کی الزام تراشی اور کردار کشی کے بعد ان کے گھر چھاپے پڑنے لگے تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کی دونوں بیٹیاں ذہنی مریض بنیں اور یہ صاحب جو پہلے صرف خود کو بچانے میں لگے ہوئے تھے اب کبھی ایک بیٹی کو لے کر ماہرِ نفسیات کے پاس ہوتے تو کبھی دوسری بیٹی کے ساتھ اسپتال میں ،گو کہ چند ماہ بعد ان کی بیٹیوں کی حالت سنبھل گئی مگر پھر بھی انہیں سال سوا سال تک صرف اس لئے جوان بیٹیوں کے کمرے میں زمین پر گدا ڈال کر سونا پڑا کہ اکثر رات کو جب بیٹیوں کی آنکھ کھل جاتی اور باپ نظر نہ آتا تو وہ خوفزدہ ہو کر چیخنے چلانے لگ جاتیں۔
میرے ذہن میں اپنی وہ مرحومہ شاعرہ بھی کہ جس کا ہمارے میڈیا نے سوتیلے بھائی کے ساتھ معاشقہ چلا دیا،اپنا وہ نامور شاعر کہ جسے اس کی منہ بولی بیٹی کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ، وہ سابق وزیر جس کی بیٹی کو یہودی سے بیاہ دیا گیا ، وہ بزنس مین جس کی پنج وقتی نمازی بیگم کو جوئے کے اڈے کی مالکہ بنا دیا گیا ، وہ پرنسپل جو اپنے خلاف جھوٹی خبریں چھپنے پر پاگل خانے جا پہنچا، وہ پروفیسر جس نے غبن کی من گھڑت خبر پر زہر کھا لیا اور وہ بینکر جسے میڈیا ٹرائل کی وجہ سے بچوں سمیت ملک چھوڑنا پڑ گیا ، میرے حافظے سے وہ دوپہر آج بھی چپکی ہوئی کہ جب عمر بھر ’’اسٹیٹس کو ‘‘ توڑنے اورہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے ڈاکٹر ظفر الطاف اپنے سامنے ایک اخبار رکھے شکستہ لہجے میں وقفے وقفے سے یہی کہے جا رہے تھے کہ ’’ یا ریہ رپورٹر تو مجھے جانتا تھا ،اسے تو جھوٹ نہیں لکھنا چاہئے تھا ‘‘ ، میری یادداشت کا حصہ اپنا وہ چیمپئن کھلاڑی بھی کہ جس کے جھوٹے جنسی اسکینڈل چھپنے پر جب ماں ناراض ہو کر دوسرے بیٹے کے گھراور بیوی میکے چلی گئی تو سردیوں کی ایک رات اپنے ڈرائنگ روم کے قالین پر بیٹھ کر ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں اپنا پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈپکڑے صفائیاں دیتے دیتے یہ اتنا رویا ، اتنا رویا کہ اسے چپ کراتے کراتے میں خود بھی رو پڑااور یہاں قہقہوں کے بادشاہ ،خوش لباس اور خوش خوراک اپنے اُس’’جم فیلو‘‘ بیوروکریٹ کا ذکر بھی کہ جسے ایک من گھڑت میڈیا مہم کے بعد ایک رات گھر سے اُٹھا لیا گیا لیکن دو ماہ کی رسوائی بھری حراست اور ذلت بھرے میڈیا ٹرائل کے بعدبھی جب کچھ نہ نکلا تو میرایہ دوست تو چھوٹ گیا مگر تب تک اسکی حراست کے دنوں سارا سارادن در بدر دھکے کھاتی اورساری ساری رات مصلے پر روتی اس کی مریضہ بیگم کا مرض بگڑ کر کینسر بنا ،ڈاکٹروں کے ایک پینل نے ہنگامی طور پر اسے ولایت لے جانے کا مشورہ دیا اور آخری اطلاعات آنے تک بیگم کو بیرون ملک لے گئے میرے اس دوست کی اپنی ذہنی حالت یہ ہو چکی کہ سارا سارا دن اکیلا اسپتال کے لا ن میں بنچ پربیٹھا چپ چاپ بس خلاؤں میں گھورتارہے۔
یہ تو چندمثالیں، ورنہ گزرے 69سالوں میں میڈیا نے کیا کچھ نہ کیا،یہ میڈیا ہی کہ جس نے قائداعظم کو اسلام سے ہی خارج کر دیا،جس نے ہر گمنام خرابی لیاقت علی خان کی جھولی میں ڈال دی ، جسے یحییٰ خان میں ایک اچھائی بھی نظر نہ آئی اور جس نے اگر ڈاکٹر اے کیو خان کو جیتے جی متنازع بنایا تو ایدھی صاحب کو مرنے کے بعد بھی نہ بخشا، یہ میڈیا ہی کہ جس نے جب چاہا سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھا یا ،رائی کو پہاڑ اور پہاڑ کو رائی بنایااوربونے کو عالم چنا جبکہ عالم چنے کو بونا ثابت کر دکھایا ،مانا کہ میڈیا نے برائیوں اور خرابیو ںکو exposeبھی کیا ، بے شک اب ہرظالم میڈیا سے خوفزدہ ، بلا شبہ شعور و آگہی میڈیا کی بدولت اور یہ بھی درست کہ برُے ترین حالات میں بہت سارے Frontsپر جہاد کرتے میڈیا کی آزادی بہت ضروری لیکن اگرہم یہ نظر انداز بھی کر دیں کہ روزانہ اخباروں میں چھپنے اورا سکرینوں پر دکھائے جانے والے مواد میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ اور اس سچ جھوٹ کے کھیل میں مہرہ کون اور ماسٹر مائنڈ کون یعنی استعمال کون ہو رہا جبکہ استعمال کون کر رہا ، تو پھر بھی سوال یہ کہ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ آپکے چند لکھے لفظ اور کہے جملے کسی پر کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں اور پھر کیا کوئی ایسی حد نہیں ہونی چاہئے کہ جہاں پہنچ کر ہر قلم رُک جائے اور ہرکیمرہ آف ہو جائے اورکیا چند چیزیں ایسی نہیں ہونی چاہئیں کہ جن کی اہمیت ’’ بریکنگ نیوز ‘‘اور ریٹنگ سے بھی زیادہ اہم ہو، مگر بات پھر وہی کہ وہاں کسی کو کوئی کیاسمجھائے اوروہاں کوئی کیا سمجھے گا کہ جہاں آئے روزجھوٹ ، غیبت اور بہتان کا بازار گرم کرنے اورہر شام چسکوں اور مصالحوں بھری محفلیں سجا کر پگڑیاں اچھالنے والوں کو یہ ارشادِ باری تعالیٰ بھی یاد نہ رہا کہ ’’ اے ایمان والو اگر کوئی تمہارے پاس خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو اور جس بات کا یقینی علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑنا ‘‘ اورجہاں سب رسولِ ؐ خُدا کا یہ فرمان بھی بُھلا بیٹھے کہ ’’ جھوٹاکبھی مومن نہیں ہو سکتااور غیبت گناہِ کبیرہ‘‘۔


.
تازہ ترین