• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالا باغ ڈیم کے بعد اب معاشی راہداری اور کشمیر بھی متنازع ؟

پاکستانی قوم کی یہ بہت بڑ ی بدقسمتی ہے کہ جب کبھی پاکستان ترقی کی منزلوں کی جانب گامزن ہونے لگتا ہے کبھی اغیار اور کبھی اپنے ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو قائد اعظم کے پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنانے کی طرف ایک موثر قدم ہوتے ہیں ۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا چلا آیا ہے اور آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔کالا باغ ڈیم ایک ایسا منصوبہ تھا جو ہماری زمینوں کو سرسبز و شاداب اور ان کے نتیجے میں خوشحالی کی ایک لہر لانے کا ایک سبب بن سکتا تھا ۔مگر آہستہ آہستہ اس کے خلاف فضا ہموار کی گئی اور پھر ایک وقت آیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مصلحتوں کے تحت اس پروجیکٹ کے خلاف صف آراء ہو گئیں ۔ماہرین بار بار ان تکنیکی امور کی وضاحت کرتے رہے جن کو بنیاد بنا کر اس عظیم الشان منصوبے کے خلاف فضا تیار کی جا رہی تھی ، یہ ماہرین دلائل دہرا نہیں رہے ساتھ یہ بتاتے رہے کہ کالا باغ ڈیم سے پاکستان کے کس صوبے یا اس کے اسی علاقے کو نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اس سے سب کو یکساں فائدہ ہوگا ۔حال ہی میں واپڈا کے دانشور چیئرمین ظفر محمود جو اپنے عہدے سے استعفیٰ د ے چکے ہیں کے مضامین متعدد قسطوں میں اخبارات میں شائع ہوئے جن میں کالا باغ ڈیم کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے بھرپور دلائل دیئےگئے تھے۔لیکن اس منصوبے کو ایک سیاسی رنگ دیا جا چکا ہے اور وہ جماعتیں بھی خاموش رہنے پر مجبور ہو گئی ہیں ۔ جو کالا باغ ڈیم کو ملکی اقتصادیات کےلئے بہت اہم گردانتی ہیں جمہوری حکومتوں کو تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا ہوتا ہے مگر آمروں کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، دکھ کی بات یہ ہے کہ جہاں جمہوری حکومتیں مصلحتوں کا شکار ہوئیں وہاں خود مختار آمر بھی جو اپنے ساتھ ہولناک برائیاں لیکر آئے تھے قوم کو کالا باغ ڈیم ایسا تحفہ نہیں دے سکے ۔جو پاکستانیوں کی آئندہ نسلوں کی زندگیوں میں بھی بہتری لانے کا سبب بن سکتا تھا۔اور جس سے ان کے گناہوں کا تھوڑا بہت کفارہ بھی ادا ہو سکتا تھا ۔
اور یہی کہانی ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے کالا باغ ڈیم سے کہیں بڑھ کر ’’معاشی راہداری‘‘کا اہم عظیم منصوبہ پاکستان کو خطے کی بڑی طاقت بنانے کے زمرے میں آتا ہے پاکستان کا دوست ملک چین اس کے لئے کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کر رہا ہے مگر اب اسے بھی متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس پر سوالات اس کے مغربی روٹ کے حوالے سے اٹھائے جا رہے ہیں احسن اقبال ان سوالات کے کئی مرتبہ جواب دے چکے ہیں ، حتیٰ کہ گزشتہ روز پاکستان میں چین کے سفیر کو یہ بیان دینا پڑا کہ اس منصوبے کے فوائد سے پاکستان کے کسی صوبے یا کسی حصے کو محروم نہیں رکھا گیااور ان سب کو لنک روڈز کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کیا جا رہا ہے مگر اسفند یار ولی جیسا سیاست دان بھی مغربی روٹ کو بنیاد بنا کر اس کے خلاف مظاہروں کی بات کر رہا ہے ۔ ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ چین کو صرف پاکستان کا نہیں اپنا مفاد بھی مدنظر رکھنا ہے کہ سارا سرمایہ وہی مہیا کر رہا ہے پاکستان کی حکومت اس حوالے سے اسے ڈکٹیشن نہیں دے سکتی ۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ پاکستان کے سب علاقے ’’معاشی راہداری ‘‘ کے فوائد سے یکساں طور پر مستفید ہوں گے تاہم اگر کہیں کوئی کمی بیشی ہے اور حکومت پاکستان اس حوالے سے کوئی کردار ادا کر سکتی ہے تو اسے ضرور کرنا چاہئے مگرمعترضین کو ضرورسوچنا چاہتے کہ کہیں اس ’’رولا لپا ‘‘ سے چینی حکومت دل برداشتہ ہو کر اس سے الگ ہو کر نہ بیٹھ جائے۔گزشتہ روز پولینڈ کے سفیر ملاقات کے لئے میرے دفتر تشریف لائے اور معاشی راہداری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک GAME CHANGERمنصوبہ ہے جو بے پناہ اہمیت کا حامل ہے ہمارے دوستوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ پاکستان کی دشمن قوتیں اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے میں سرگرم عمل ہو چکی ہیں یہ منصوبہ ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے ۔ہمیں اس طرح کا کوئی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جو پاکستان دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا باعث بنے ۔
اور تیسری طر ف کشمیر کی موجودہ صورتحال ہے کشمیر پاکستان کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس وقت کشمیر میں جنگ آزادی اپنے عروج پر ہے کشمیری حصول آزادی کے لئے تاریخ کی بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں وہاں پاکستان کے جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں اور وادی کی فضائیں پاکستان زندباد کے نعروں سے گونج رہی ہیں ۔نہایت خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس نہتے وزیر اعظم نواز شریف کے بلائے گئے اجلاس میں شرکت کی اور کشمیری بھائیوںکے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئےا نہیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ۔ اب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلا س ہو رہا ہے اور پاکستان بلکہ خود عمران خان کی تحریک انصاف کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس جماعت نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا جس میں کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہونا ہے گویا تحریک آزادی کشمیر کے اس ہم ترین موڑ پر عمران خان کی جماعت دنیا کو یہ پیغام دے گی کہ آزادی کشمیر پورے پاکستان کی آواز نہیں ہے ۔ گزشتہ روز نجمسیٹھی نے اپنے جیو کے پروگرام میں یہ اشارہ دیا کہ عمران خان یہ پیغام کسی طرف سے ’’پیغام ‘‘ ملنے کی وجہ سے دے رہے ہیں ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو عمران خان اور پیغام دینے والوں کے لئے اس سے زیادہ شرمناک بات اور کوئی نہیں ہو سکتی آپ سیاست کو بھی کھیل سمجھ کر کھیلیں لیکن خدا کے لئے پاکستان کے مستقبل کے ساتھ کھیلنا بند کر دیں !


.
تازہ ترین