• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانامالیکس، 303کو نوٹس، 94 کا جواب، 14 نے آف شور کمپنیوں کا اعتراف کرلیا، ایف بی آر

اسلام آباد(تنویر ہاشمی،اسرارخان) پاکستان سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) اورسٹیٹ بنک آف پاکستان نے کہا ہے کہ ان کا پانامہ لیکس کے حوالے سے پاکستانیوں کی بیرون ملک آف شور کمپنیوں کی تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی خزانہ میں ایف بی آر، ایس ای سی پی اورسٹیٹ بنک نے پانامہ پیپرز لیکس پر کمیٹی کو بریفنگ دی اور آف شور کمپنیوں کے معاملے پر اب تک کی پیش رفت سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔ قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت ہوا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ڈائریکٹوریٹ آف انوسٹی گیشن اینڈ انٹیلی جنس کے ڈی جی خواجہ تنویر نے کمیٹی کو پانامہ پیپرز لیکس پر پریزنٹیشن دیتے ہوئے بتایا کہ پانامہ پیپرز لیکس میں نام آنیوالے444افراد میں سے 303افراد کو نوٹس بھیجے گئے ہیں۔ پانامہ  پیپرز میں آنیوالی پاکستانی کمپنیوں کے 155ڈائریکٹرز کے ڈیٹا کو کراس چیک کیا گیا۔ میڈیا میں آنیوالی معلومات نامکمل تھیں، ان میں سے صرف 181افراد کے گھر کا پتہ ملاان کے پاسپورٹ نمبرز اور تاریخ پیدائش کا ڈیٹا لیاگیا ہے۔181افراد کے علاوہ 122افراد کے ایڈریس کو خود ایف بی آر نے تلاش کیا۔ اب تک 141افراد کو نوٹس نہیں بھیجے گئے کیونکہ ان کا ڈیٹا نہیں مل رہا، جن افراد کو نوٹس بھیجے گئے ہیں ان سے آف شور کمپنی کی ملکیت، مالیاتی معاملات اور ٹیکس کے امور کی معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ 303 میں سے 94افراد نے نوٹس کا جواب دیاجن میں سے 14افراد نے آف شور کمپنیوں کا اعتراف کیا، 17نے مسترد کردیا جبکہ 33نے کہا کہ ان کے کیس کو التواء میں ڈالا جائے کیونکہ وہ بیرون ملک ہیں یا ان کو نوٹس دیر سے ملا جبکہ 25نے متفرق جوابات دیئے اور کہا کہ ایف بی آر کو اس کا اختیار نہیں۔ جن افراد نے آف شور کمپنیوں کا اعتراف کیا ان میں سے بعض نے کہا کہ انہوں نے ٹیکس ادا کیا، بعض کا کہنا تھا کہ انہوں نے کمپنی بند کردی۔ جن 155ڈائر یکٹرز کا ڈیٹا چیک کیا گیا ان میں سے 78 ریگولر ریٹرن فائلر ہیں، 32 ریگولر ریٹرن فائلرنہیں ہیں، 11نان فائلرجبکہ 34کے کیسز کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ ریٹرن فائل کرنیوالوں میں سے 14کی غیرملکی ذرائع آمدن ہے جبکہ 20کے غیر ملکی اثاثے اور آمدن ہے۔ ڈی جی نے بتایا کہ جن کے جواب نہیں آرہے ان کو تین دفعہ یاد دہانی کرائی جائے گی اورپھر بھی جواب نہ آیا تو جرمانے کیے جائیں گے اور پھر بھی جواب نہ آیا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ جرمانے کے حوا لے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلی بار ڈیفالٹ کرنے پر 25ہزار اس کے بعد ہر ڈیفالٹ پر 50ہزار جرمانہ کیا جائے گا۔ چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان نے کہا کہ پانامہ ، بہاماس ٹیکس کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں ان تک رسائی کے لیے ٹیکس کی معلو ما ت کے تبادلے کے عالمی معتبر ادارے او ای سی ڈی کے کنونشن پر پاکستان نے دستخط کرد یئے ہیں ،او ای سی ڈی نے پانامہ کو گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے ایسے ملک جو ٹیکس قوانین پر عمل نہیں کرتے ، انہوں نے کہا کہ اگر کسی  نے ٹیکس چوری کے لیے آف شور کمپنی بنائی تو وہ غیر قانونی ہے جبکہ ٹیکس کی ادائیگی کے بعد رقم کی بیرون ملک منتقلی غیر قانونی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا رپورٹس پر کاررو ائی کرنا مشکل تھا چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی نے کمیٹی کو بتایا کہ پانامہ لیکس کے سامنے آنے کے فوراً بعد 21اپریل کو ایس ای سی پی نے وزیر خزانہ کو خط لکھا ، 29اپریل کو وزیر خزانہ نے جوابی خط میںکہا کہ بے ضا بطگیو ں کو چیک کیا جائے ، ایس ای سی پی نے 444 افراد کو تلاش کیا جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ، 280کمپنیاں تھیں جبکہ ان کے 155ڈائریکٹرز کے ناموں کی شناخت ہوئی ،ان میں سے 36لسٹڈ کمپنیاں ، 61پبلک سیکٹر، 29نان پرافٹ کمپنیاں ہیں ان کمپنیوں میں کسی قسم کی بے ضابطگی سامنے نہیں آئی۔ انہوں نے کہا  کہ ایس ای سی پی کی جانب سے ایسی کوئی پابندی نہیں کہ کوئی شخص باہر کمپنی قائم نہیں کر سکتا ،ایس ای سی پی ایک ریگولیٹر ہے اورایسی کمپنیوں کو پابند کرنے کے لیے کمپنی قانون میں ترمیم لار ہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس ای سی پی کا تعلق اندرون ملک رجسٹرڈ کمپنیوں سے ہے بیرون ملک قائم کمپنیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ کمیشن نے ایس ای سی پی سے رجسٹرڈ کمپین کی درکار معلومات ایف بی آر کو فراہم کردی ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ سٹیٹ بنک کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں ، البتہ بنکنگ سیکٹرکے تحت مشکوک ٹرانزکشن کے تحت فنانشل مانیٹرنگ یونٹ(ایف ایم یو) کو بھیجا جاتا ہے اور وہ جائزہ لیکر فیصلہ کرتا ہے کہ کیس کو ایف آئی اے میں بھیجا جائے۔ کمیٹی میں مسلم لیگ ن کے دانیال عزیز نے بھی پانامہ پیپرز لیکس پر پریزنٹیشن دی۔ قبل ازیں قائمہ کمیٹی خزانہ نےٹیکس لاء ( ترمیمی ) بل 2016، لمیٹڈ لائیبلٹی پارٹنرشپ بل 2016 کی متفقہ طورپر منظوری دی۔ چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان نے ٹیکس لاء ترمیمی بل پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اِن پُٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کو صوبائی مطالبہ مان کر بل میں ترمیم ڈالی گئی ہے اور صوبائی ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کو رواں برس کے بجٹ سے پہلی والی حیثیت کو بحال کر دیا ہے۔ کمیٹی میں انکم ٹیکس (ترمیمی ) بل 2016پر غور کیا گیا ۔ ارکان نے جائیداد کی قیمتوں کے تعین پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ رئیل سٹیٹ سے وابستہ افراد اور عام عوام کو بھی جائیداد کی نئی قیمتوں اور ٹیکس پر تحفظات ہیں۔ عام لوگوں کو ایف بی آر پر ابھی بھی عدم اعتماد ہے اور اس حوالے سے خدشات ہیں۔ رکن کمیٹی پرویز ملک نے کہا کہ ایسے علاقوں میں جہاں جائیداد کے ریٹ کم ہونے چا ہئے تھے وہاں زیادہ ہیں اور جہاں زیادہ ہونے چاہئے تھے وہاں کم ہیں۔ میاں منان نے کہا کہ جائیداد کی نئی قیمتوں کے تعین سے اس شعبے میں سرمایہ کاری رک گئی ہے اورٹیکس بھی کم ہو گیا ہے، رشید گوڈیل نے کہا کہ من پسند جگہوں پر اچھا ریٹ دیا گیا جبکہ من پسند لوگوں کا ریٹ کم لگایا گیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہمار ا کوئی من پسند نہیں ، آج کل تو الزامات کی بھر مار ہے ،جائیدا د کی قیمتوں کا بجٹ سے پہلے دوبارہ جائزہ لیا جائیگا۔ قیصر شیخ نے جائیداد کی ویلیوایشن پر تحفظات سے متعلق خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ آئندہ اجلاس میں آباد اور رئیل سٹیٹ کے نمائندوں کو بھی بلایا جائیگا جبکہ ارکان کے تحفظات کو مدنظر رکھ کر قانون میں ترمیم لائی جائے گی ، اجلاس میں صنعتی اور کمرشل برآمد کنند گا ن کے انکم ٹیکس کے فرق کو دور کرنے کی بھی سفارش کی گئی۔کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے دلچسپ امریہ ہے کہ پانامہ لیکس کے سلسلے میں کئی ماہ سے احتجاج کرنے والی دو بڑی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی بھی رکن قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں شریک نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کی ایم این اے نفیسہ شاہ بمشکل 10منٹ کے لئے اجلاس میںشریک ہوئیں اور یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں کہ ان کی اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس جاری ہے انہیں وہاں شریک ہونا ہے۔
تازہ ترین