• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر بدھ کو سنائی دی جانے والی آواز۔ وہ اب کبھی سنائی نہیں دے گی۔ اشتیاق علی خان، جنہیں ان کے دوست احباب، ان کے مطالعہ، اور اپنی محبت کی وجہ سے، ڈاکٹر اشتیاق کہتے تھے، اب ہم میں نہیں رہے۔ تقریباً ہربدھ کو ان سے فون پر بات ہوتی، کالم مل گیا کبھی میں پوچھتا، کبھی وہ خود بتاتے، مل گیا ہے، ٹھیک ہے۔ کبھی ان کی شفقت بھری آواز سنائی دیتی، کالم کا انتظار ہے۔ ابھی بھیجتا ہوں،۔ یا جب نہیں لکھا ہوتا، معذرت کرتا، لکھا نہیں جا سکا۔ کوئی بات نہیں، وہ کہتے، اور فون بند ہو جاتا۔ ان کے دفتر میں ملاقا ت ذرا طویل ہوتی۔ اپنے کمرے میں بیٹھے جب وہ کام کر رہے ہوتے، جب فارغ ہو چکتے، ایک چھوٹے سے پلیئر پہ قرآن شریف سن رہے ہوتے۔ ان کی باتیں سننے کبھی کبھی ان کے دفتر چلا جاتا تھا۔ وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے، خاص طور پر تاریخ اور مذہب ان کے پسندیدہ موضوع تھے۔ کس نے تاریخ میں کیا لکھا، اور کس نے اس کی تردید کے لئے کیا کیا، یہ سب باتیں انہیں از بر تھیں۔ یہ اندازہ نہیں کہ حافظِ قرآن تھے یا نہیں مگر جب بھی حوالہ دیتے، قرآن کی متعلقہ آیات سناتے۔
ان سے واقفیت کافی عرصے سے تھی۔ کبھی پریس کلب کی سیاست میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے، بعد میں کچھ اختلافات ہو گئے اور اس کی وجہ ان کے اصول تھے۔ وہ شاید ہی کبھی اپنے اصولوں پہ سمجھوتہ کرتے ہوں۔ پریس کلب کے ارکان کے اجلاسِ عام میں وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جو آئین کی پاسداری کے لئے پورے زور و شور سے اپنی آواز بلند کرتے۔ کبھی کبھی تلخی بھی ہو جاتی۔ مگر وہ اسے دل میں نہیں رکھتے تھے۔ جن دنوں پریس کلب میں ان کا بسیرا زیادہ ہوتا تھا، وہ ایک کونے میں اپنی محفل سجائے رکھتے، آس پاس ان کے دوست احباب انہیں گھیرے بیٹھے رہتے۔ اشتیاق صاحب اپنے علم کے موتی بکھیرتے رہتے، بحث مباحثہ ہوتا، علمی گفتگو ہوتی تو زیادہ تر وہی بولتے۔ اور کون تھا جس کی علمی حیثیت ان سے زیادہ تھی۔ پھر انہوں نے پریس کلب جانا کم کردیا، بلکہ آخری دنوں میں تو بہت ہی کم جاتے تھے۔ دفتر سے اٹھتے تو برابر کی گلی میں ایک ہوٹل میں جا بیٹھتے، اور وہیں ا ن کے مداح جمع ہو جاتے۔ یہ محفل رات گئے تک جاری رہتی، اشتیاق صاحب بولتے، سب سنتے۔
کالم لکھنا شروع کیا تو ان سے ربط بڑھ گیا۔ وہ ادارتی صفحے سے ہی متعلق تھے، انہی سے زیادہ واسطہ رہتا۔ اس سے پہلے، پریس کلب کی سیاست کی وجہ سے ہمارے درمیان کچھ فاصلہ سا محسوس ہوتا تھا۔ مگر جب کالم اشاعت کے لئے ان کے پاس جانے لگا تو کبھی ایک بار ، برائے نام بھی، ماضی کا کوئی عکس نظر نہیں آیا۔ وہ بڑی محبت سے ملے اورملتے رہے، اس سے بھی زیادہ محبت سے میری شریکِ حیات کے علاج کے لئے دعائیں بتاتے رہے، ان دعائوں کی تلاوت بھی فراہم کی۔ ان سے ان کے دفتر میں ملاقات مختصر نہیں ہو تی تھی۔ خاصا وقت ان کے ساتھ گزرتا، ان دنوں جو موضوع زیرِ بحث ہوتا، اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے، کتابوں کا حوالہ دیتے اور بیچ بیچ میں قرآن اور حدیث کا بھی۔ باوجود اس کے کہ وہ خود زیادہ بولتے تھے، ان کی صحبت میں بوریت نہیں ہوتی تھی، علم میں اضافہ ہوتا تھا۔ آپس کی گفتگو میں وہ کبھی اپنی رائے ٹھونستے نہیں تھے۔ پریس کلب میں کسی آئینی نکتہ پر بحث کے دوران ان کا رویہ بالکل مختلف ہوتا۔ وہاںوہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہتے تھے، اور اپنی بات بھرپور طریقے سے پیش کرتے۔ انہیں یہ خوف نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین کی تعداد زیادہ ہے، اور رائے شماری کی صورت میں انہیں شکست ہو جائے گی۔ بات شکست اور فتح کی نہیں، اصول کی ہے۔ اگر کوئی بات آئین کے خلاف ہے تو اشتیاق صاحب اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ ایک بار انہوں نے پریس کلب کے انتخابات کو ، کسی وجہ سے، غیر آئینی سمجھا اور ووٹ نہیں دیا، حالانکہ وہ ہمیشہ بڑی باقاعدگی سے پریس کلب کہ انتخابات میں ووٹ ضرور ڈالتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کراچی پریس کلب اپنے قیام سے اب تک، ہمیشہ، ہر سال انتخابات کراتا ہے۔ یہاں کبھی بھی انتخابات ملتوی نہیں ہوئے۔ اس بار ، جب اشتیاق صاحب انتخابات سے نا خوش ہوئے تھے، تب بھی ان کا یہ مطالبہ نہیں تھا کہ انتخابات نہ کرائے جائیں۔ ان کی رائے میں جو آئینی سقم رہ گیا تھا، اسے دور کیا جائے، اور اپنے اس موقف کی حمایت میں انہوں نے جنرل باڈی اجلاس میں اپنی رائے کا بھرپور اظہار کیا، جس میں جلال بھی تھا، اور قانونی مو شگافیاں بھی۔ یہ اشتیاق صاحب کا جلالی دور تھا۔یہ کیفیت ان پر پہلے نہیں تھی، اور بعد میں بھی نہیں رہی۔ جامعہ کراچی کے ان کے ساتھی ان کی حس مزاح ، محفل آرائی، اور دوست احباب کی پذیرائی کے حوالے آج بھی دیتے ہیں۔ اُس وقت بھی ان کے ہاتھ میں کوئی کتاب ہوتی تھی۔ بعد میں ایک تھیلے میں کئی کتابیں نظر آتی تھیں، یہ تھیلا یا تو ان کے ہاتھ میں لٹکا رہتا، یا جب بیٹھے ہوتے، تو برابر کی کرسی پر دھرا رہتا۔ اس میں مختلف موضوعات پر کتابیں ہوتیں، جو یاتو انہوں نے دفتر آتے وقت خریدی ہوں گی، یا گھر سے لائے ہوں گے، پڑھنے کے لئے۔ مطالعہ کا شوق انہیں ہمیشہ سے تھا۔ کچھ دوستوں کا خیال یہ بھی ہے کہ کثرتِ مطالعہ ، اور مختلف کتابوں میں موجود تضادات کی وجہ سے بھی ان پر ایک عرصے تک ’’جلالی‘‘ کیفیت طاری رہی۔ بعد میں وہ خاصے دھیمے ہوگئے تھے، بات بھی دھیمے لہجے میں کرتے تھے ۔ مگر ٹینشن کے دور نے انہیں جو نقصان پہنچادیا تھا، بالآخر دل کے دورے کا سبب بنا، اور ان کی جان لے کر ٹلا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
اشتیاق صاحب جن دنوں پریس کلب میں ایک فرد پر مشتمل حزبِ اختلاف تھے، اور بعد میں بھی جب ان کی دلچسپی ان معاملات سے کم یا ختم ہو گئی تھی، کبھی کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے۔ ان کا موقف اصولوں پر مبنی ہوتا تھا۔ یاد نہیں کہ بعد میں بھی کبھی انہوں نے کسی فرد کے غیاب میں اس کی برائی کی ہو۔ میں جب ان کے پاس جاتا، بہت سے موضوعات پر بات ہوتی، مگر شاید ہی کبھی کسی فرد پر گفتگو رہی ہو، اس کی خامیوں کے حوالے سے۔ ایک کالم نویس کے بارے میں ان سے پوچھا جو جنگ میںکچھ دن لکھ کر واپس اپنے پرانے اخبار میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے نہایت معصومیت سے اپنی لا علمی کا اظہار کردیا۔ پتہ نہیں کیوں چلے گئے، ان کا جواب تھا۔ میرا گمان ہے انہیں پتہ ہوگا، مگر اس پر بات کرنے میں غیبت کا پہلو آسکتا تھا، اشتیاق صاحب اس سے بچنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ گفتگو کسی اور طرف لے گئے، کسی کتاب کی طرف، کسی ایسے مشترک موضوع کی طرف جس پر ہم دونوں بات کر سکیں۔
عمر میں وہ مجھ سے تو بہت چھوٹے تھے، اور بھی مشترکہ دوستوں سے کم عمر، مگر قیصر محمود کے بقول، انہوں نے خود پر بزرگی طاری کرلی تھی۔ داڑھی رکھ کر وہ اور بھی معمر اور معتبر لگنے لگے تھے۔ اس کا اظہار مگر ان کی عادت نہیں تھا۔ وہ اس کیفیت سے بہت آگے بڑھ چکے تھے جہاں اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا بعض لوگ اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ علم اور مطالعہ اور غور و فکر معقول آدمی میں ٹھہرائو پیدا کر تے ہیں۔ وہ ایک معقول آدمی تھے۔ ان میں بہت ٹھہرائو آگیا تھا۔ اللہ انہیں جنّت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔
تازہ ترین