• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر معاشرے میں حقیقت پسند، بالغ نظر اور دھیمے مزاج کے لوگ بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی جو بالعموم ڈھٹائی، ہٹ دھرمی اور تند مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مہذب ملکوں میں پہلی قسم کے انسان اکثریت میں ہوتے ہیں اور یہ اعلیٰ اوصاف قیادتوں کے اندر بکمال پائے جاتے ہیں، البتہ غیر متوازن سوسائٹیوں میں زیادہ تر ہٹ دھرم رہنماؤں اور لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ علم، ادب، شاعری، آرٹ اور تہذیب سے رویوں میں شائستگی آتی ہے اور ایک دوسرے کی بات سننے سمجھنے اور قرینے سے سُلجھانے کا سلیقہ پرورش پاتا ہے۔ اِس کے برعکس جو معاشرہ تنگ نظری اور انتہا پسندی کے سائے میں پرورش پاتا ہے، اِس میں تعصبات بہت ہوتے ہیں، کج بحثی کے مناظر قدم قدم پر دیکھنے میں آتے ہیں اور ہٹ دھرمی، حقیقتوں سے چشم پوشی اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کی عادت فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ آج کل پاکستان کو بیرونی ہٹ دھرموں سے بھی واسطہ پڑا ہوا ہے اور اندرونی ضدیوں اور لال بجھکڑوں سے بھی۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نوازشریف نے مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی تحریکِ آزادی کو انتقاضہ اور برہان وانی شہید کو اِس عظیم الشان تحریکِ آزادی کی زندہ علامت کیا قرار دیا کہ بھارتی قیادت کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ نریندر مودی کی رگ و پے میں مسلم دشمنی اور مذہبی تنگ نظری رچی بسی ہے، انہوں نے طبلِ جنگ بجا دیا اور اعلان کر دیا کہ ہم اوڑی میں بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز پر ہونے والے حملے کا پاکستان سے انتقام لیں گے۔ 21ستمبر کی دوپہر بھارتی ڈائریکٹر جنرل آپریشن نے پریس بریفنگ میں نہایت بے دلی سے لکھی ہوئی تحریر پڑھتے ہوئے کہا کہ ہم نے گزشتہ رات آزاد کشمیر میں کئی کلومیٹر اندر سرجیکل اسٹرائیک کی ہے، کئی تربیتی کیمپ تباہ کر دیے ہیں اور ایک درجن سے زائد تخریب کار مار ڈالے ہیں۔ معروف صحافی سید افتخار گیلانی جو آل حریت کانفرنس کے عظیم رہنما سید علی گیلانی کے داماد ہیں، وہ اِس پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل آپریشن کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا جبکہ اِس عمارت میں فتح کا جشن منایا جا رہا تھا اور مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی تھیں جیسے بھارت نے پاکستان کو فیصلہ کن شکست دے دی ہو۔
پاکستان کے فوجی ذرائع نے بھارت کے سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کی سختی سے تردید کی اور آئی ایس پی آر کے نہایت مستعد اور بیدار مغز ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اپنے ہمراہ غیر ملکی صحافیوں اور قومی اخبار نویسوں کو اُن مقامات پر لے گئے جہاں جہاں بھارتی فوجی ذرائع نے آپریشن کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ اپنے ساتھ دور بینیں بھی لے گئے تھے۔ وہاں بم گرنے کے نشانات نظر آئے نہ آبادی میں سے کسی نے بھارتی ہیلی کاپٹروں کو اُترتے دیکھا۔ غیر ملکی میڈیا نے بھارتی دعوے کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا اور امریکی ترجمان نے اِس واقعے کے بارے میں اپنی رائے دینے سے گریز کیا۔ نریندر مودی کی سبکی میں اِس وقت بہت اضافہ ہوا جب بھارت کے اندر اُن کے دعووں کے بارے میں سنگین سوالات اُٹھنا شروع ہو گئے۔ صوبہ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال جنہوں نے صوبائی انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت کو ایک شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا اور اُن کے اقتدار کو زبردست ضرب لگائی تھی، اچانک وہ ٹی وی پر آئے اور کہا کہ میں پاکستان کی طرف سے آنے والے بیانات اور عالمی میڈیا کے اندر شائع شدہ رپورٹیں پڑھنے کے بعد یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اِن میں سرجیکل اسٹرائیک کا کہیں بھی نام و نشان دکھائی نہیں دیتا، اِس لیے وفاقی حکومت کو میرا مشورہ ہے کہ وہ عالمی برادری کو ثبوت فراہم کرے۔ دہلی کا انتہائی مقبول وزیراعلیٰ جس نے ’جھاڑو‘ کے نشان پر انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی، اِس کی آواز بھارتی سیاست میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اِسی طرح ایک اور طاقت ور آواز مودی صاحب کا تعاقب کر رہی ہے۔ سنجے نیروپم ایک زمانے میں نریندر مودی کے بہت قریبی سیاسی رفیقِ کار تھے۔ وہ الگ ہو کر کانگریس میں چلے گئے اور آج کل لوک سبھا کے رکن ہیں۔ انہوں نے کسی لاگ لپٹ کے بغیر کہا کہ سرجیکل اسٹرائیک جعلی ہے۔ اِسی طرح بھارت کے نہایت سینئر اور تجربے کار صحافی اجیت ساہی نے مودی جی کے دعوے کے بخیے اُدھیڑ دیے ہیں اور اُنہیں احساس دلایا ہے کہ تم نے بھارت کو عالمی رائے عامہ کی عدالت میں لا کھڑا کیا ہے۔ اِس غیر معمولی سبکی اور ہزیمت کے بعد بھارت کے سیکورٹی مشیر اجیت دول نے وزیراعظم پاکستان کے سیکورٹی مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ سے ٹیلی فون پر کشیدگی ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔ پاکستانی افواج کے جوابی حملوں نے بھارتی فوج کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا ہے۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت کو اِس کے جرم کی بہت بڑی سزا ملنے والی ہے۔ اِس نے پوری دنیا کے سامنے یہ اعتراف کیا ہے کہ اِس نے سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرجیکل اسٹرائیک کی ہے۔ اِس لیے پاکستان کو اپنے دفاع میں بھارت کو سخت جواب دینے کا حق پہنچتا ہے۔ بھارت نے جو چھیڑ چھاڑ شروع کی ہے، اسے بند کرنا اب اس کے اختیار میں نہیں ہو گا۔
وزیراعظم نوازشریف نے اِس اُبھرتی ہوئی صورتِ حال پر غور کرنے کے لیے تمام پارلیمانی اور سیاسی قیادتوں کو اجتماعی غوروفکر کی دعوت دی۔ جناب شیخ رشید جو ایک سیاسی رہنما سے زیادہ ایک سیاسی کمانڈو محسوس ہونے لگے ہیں، انہیں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ اِس پر جناب عمران خاں ناراض ہو گئے اور آل پارٹیز کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے، البتہ جناب مخدوم شاہ محمود قریشی اور محترمہ شیریں مزاری نے اِس اہم قومی اجتماع میں حصہ لیا۔ جناب اعتزاز احسن، جناب سراج الحق، جناب مخدوم شاہ محمود قریشی نے جنرل اسمبلی میں ہونے والی جناب وزیر اعظم کی تقریر کی تعریف کی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت اور ایک قومی ایجنڈے پر اتفاق سے بھارتی قیادت کو نہایت مضبوط پیغام گیا کہ قومی سلامتی کے تحفظ اور کشمیری عوام کی قانونی جدوجہد کی حمایت میں پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ اگلے روز سیاسی اور عسکری قیادت جمع ہوئی اور اِس نے اعلان کیا کہ ہم اپنے وطن کے چپے چپے کا دفاع کرنے کا عزم اور استعداد رکھتے ہیں۔ بھارت کے سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور کشمیر کو پاکستان سے جدا نہیں ہونے دیں گے۔ اِن حوصلہ مند اعلانات نے اہلِ وطن کو نئے جذبوں اور ولولوں سے معمور کر دیا اور پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان سی پیک کی تعمیر اور تکمیل میں نہایت سنجیدہ اور متحرک ہے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بنیادی مسائل پر گہرے غوروخوض اور بڑے فیصلوں تک عمومی اتفاقِ رائے کے ساتھ پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اِس نازک مرحلے میں ہماری پاک سرزمین کو بہت سارے داخلی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بیرونی دشمنوں نے اپنے ایجنٹ پاکستان کے اندر داخل کر رکھے ہیں جو طرح طرح کے فتنوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ کچھ بدگمانیاں اِس لیے بھی بحران کی شکل اختیار کر لیتی ہیں کہ اِن کا بروقت ازالہ نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو نفرتوں کی آبیاری کر رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف نفرت، آئین اور جمہوریت کے خلاف نفرت، سیاسی روایات کے خلاف نفرت اور پُرامن انتقالِ اقتدار کے خلاف نفرت۔ جناب عمران خاں بے پایاں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اِن کی شخصیت میں ایک طلسماتی حسن ہے۔ وہ نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ لینے کی زبردست طاقت رکھتے ہیں۔ انہوں نے 30ستمبر کے جلسۂ عام میں ایک فکر انگیز تقریر کی اور بہت سارے دماغوں کو متاثر کیا، مگر آخر میں اسلام آباد کو بند کرنے اور میاں نوازشریف کو حکومت سے ہٹانے کا جو الٹی میٹم دیا، اِس نے قوم کے بہت بڑے حصے کو مایوس اور پریشان کر دیا ہے۔ چند روز بعد انہوں نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے بائیکاٹ کا اعلان کر کے تمام سیاسی زعما کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ وہ پورے نظام کے خلاف نوجوانوں کے اندر نفرت اور انتقام کا زہر بھرتے جا رہے ہیں جو انسانی تہذیب کی نظر میں بہت بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ دراصل انارکی اور افراتفری کے اِس نظریے کی حمایت کر رہے ہیں کہ کوئی شخص پچاس ساٹھ ہزار لوگوں کے ساتھ دارالحکومت پر یلغار کر کے حکومت پر قبضہ کرے اور اِسے حکمرانی کا حق حاصل ہو جائے۔ ملک میں انارکی پھیلتی ہے تو بیرونی طاقتیں داخل ہو جاتی ہیں۔ ہم عظیم اسلامی ملک شام کو انارکی کی آگ میں بھسم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو شخص ڈھٹائی سے کام لیتا ہے، اِس کے دل پر کپکپاہٹ طاری رہتی ہے۔ ہم اِس پر عزم و صمیم کی طاقت سے قابو پا سکتے ہیں۔ یہ کام اپنی ذات کو تسخیر کر لینے ہی سے ممکن ہے۔ ذہن کھلے اور ظرف وسیع ہونے چاہئیں کہ محبت ہی فاتحِ عالم ہے۔
ہمیں اُمید رکھنی چاہیے کہ جناب عمران خاں اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں سے چمن کو نکھارنے کا کام لیں گے اور میاں نوازشریف جو لوگوں کو سینے سے لگانے میں ایک عجب فرحت محسوس کرتے ہیں، وہ آواز دوست ثابت ہوں گے۔
نوٹ:ہمارے عظیم اور قابلِ فخر دوست جناب صدیق الفاروق کے سب سے چھوٹے بیٹے کی ناگہانی موت پر ہم سب کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس نوجوان کی مغفرت فرمائے، جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اِس کے والدین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔


.
تازہ ترین