• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم لوگ بہت عجیب ہی نہیں، بہت غریب بھی ہیں چنانچہ ہمارے مسائل دونوں طرح کے ہیں، ایک مسئلہ ایسا بھی ہے جو بیک وقت عجیب بھی ہے اور غریب بھی یعنی عجیب و غریب ہے اور وہ یہ کہ ہمیں جب کسی سے کام پڑتا ہے اور وہ کام اکثر جائز ہوتا ہے جو ناجائز نظام کی وجہ سے اپنے آپ نہیں ہورہا ہوتا تو ہم کوئی سفارش ڈھونڈھتے ہیں اور سراپا عجز و انکسار بن کر اس سفارشی کے پاس پہنچتے ہیں۔ سفارشی بھی اسی ناجائز نظام کا باسی ہوتا ہے چنانچہ وہ اپنی سفارش اپنے پاس سنبھال کر رکھنا چاہتا ہے کہ خود اسے بھی کسی وقت اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن جو میری طرح کے رقیق القلب سفارشی ہوتے ہیں وہ فوراً اس آتش نمرود میں کود پڑتے ہیں.....!
عجیب و غریب سلسلہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے، اگر تو آپ کی سفارش کام نہیں آتی تو ’’سائل‘‘ تیر کی طرح واپس آپ کی طرف آتا اور کہتا ہے ’’جناب مجھے اپنا کام نہ ہونے کا کوئی افسوس نہیں مگر مجھے یہ دیکھ کر سخت دیکھ ہوا کہ جناب کی شہر میں ٹکے کی عزت نہیں ہے، میں نے آپ کا رقعہ صاحب کے ہاتھ میں دیا اس نے آپ کا نام پڑھا تو پوچھا یہ کون صاحب ہیں، میں نے کہا صاحب جی ایسے تو نہ کہیں وہ آپ کے قریبی دوستوں میں سے ہیں مگر جناب، صاحب نے آپ کا رقعہ پھاڑ کر ٹوکری میں پھینک دیا اور بولے تم جس شخص کا رقعہ لیکر آئے ہو وہ نہایت واہیات آدمی ہے چنانچہ تمہارا کام اگر ہونا بھی تھا تو اب نہیں ہوگا، اس نے جناب کے بارے میں اور بھی بہت سی فضول باتیں کیں اور پھر چپڑاسی سے کہا اسے باہر نکال دو۔ جناب مجھے اپنے کام نہ ہونے کا کوئی افسوس نہیں لیکن جناب کی جو بے عزتی ہوئی ہے اور صاحب کے رویہ سے مجھے جو اندازہ ہوا ہے کہ شہر میں آپ کی ٹکے کی عزت نہیں، اس کا مجھے بہت افسوس ہے!‘‘
یہ وہ سائل ہوتے ہیں جو برسوں کی دوستیاں نہ صرف یہ کہ چشم زدن میں ملیامیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ آپ کو اپنی اوقات بھی اس بری طرح یاد دلاتے ہیں کہ خودکشی کو جی چاہنے لگتاہے، اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جب آپ کی سفارش سے اس قسم کے سائل کا کام ہو جاتا ہے تو پھر واپس آپ کی طرف نہیں آتا بلکہ فون پربھی نہیں بتاتا کہ اس کا کام ہو گیا ہے کہ کہیں آپ متعلقہ شخص کا شکریہ ادا نہ کردیں جس نے آپ کے کہے کی عزت رکھی تھی۔ چنانچہ برسوں کے تجربہ کے بعد اب میرا وتیرہ یہ ہے کہ اگر کبھی کسی ’’سائل‘‘ کی سفارش کردی اور وہ ’’سائل‘‘ مجھے اپنی شکل نہ دکھائے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ اس کا کام ہوگیا ہے، چنانچہ میں متعلقہ شخص کا فون پر شکریہ ادا کردیتا ہوں!
سفارش تلاش کرنے والوں کی ایک قسم اور بھی ہے، وہ انتہائی ناجائز کام آپ کے پاس لیکر آئیں گے جس کے کرنے والے کو موقع پر ہتھکڑیاں لگ جائیں اور سفارشی عمر بھر ضمیر کی خلش محسوس کرتا رہے۔ آپ اسے کہیں کہ بھئی یہ کام ناجائز ہے، یہ نہیں ہوسکتا، اس پر اس کا عمومی جواب یہ ہوتا ہے کہ جناب اگر جائز کام ہوتا تو میں نے آپ ہی کے پاس آنا تھا؟ اس سے اور کچھ نہ ہو آپ کو یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ شہر میں آپ کی ریپوٹیشن کیا ہے؟ ایک گائوں سے میرے ایک جاننے والے کی وساطت سے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہا ’’ایک چھوٹا سا کام ہے، اس کیلئے آپ کے پاس آتے ہوئے شرم آتی تھی لیکن چودھری صاحب نے کہا کہ وہ صرف آپ ہی کو جانتے ہیں‘‘ میں نے کہا ’’کوئی بات نہیں، آپ کام بتائیں!‘‘ بولے ’’یہ جو جناب آپ کے سامنے بیٹھا ہے، اس نے مخالفوں کے تین چار بندے لا دیئے ہیں (قتل کردیئے ہیں) اب پولیس اسے گرفتار کرنے کیلئے گھر پر چھاپے مار رہی ہے، گھر میں پردہ دار بیبیاں ہیں، ہم عزت دار لوگ ہیں، ذرا آئی جی صاحب کو فون کر کے ان پولیس والوں کی پتلون تو اتروائیں‘‘۔
سفارش تلاش کرنے والوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو خوامخواہ سفارش تلاش کرتی رہتی ہے مثلاً یار، عزیزوں میں ایک مرگ ہوگئی ہے کوئی گورکن واقف ہے؟ بینک سے چیک کیش کرانا تھا، کیشیئر سے کوئی واقفیت ہے؟ گاڑی میں پٹرول ڈلوانا ہوتا ہے، کوئی پٹرول پمپ والا واقف ہے؟ بچوں نے اسکول جانا ہوتا ہے کوئی تانگے والا واقف ہو تو بتلائو؟ بچے ناشتے میں کلچہ پسند کرتے ہیں، کوئی کلچے والا واقف ہے؟
یہ سفارشیں جو ہمیں مضحکہ خیز لگتی ہیں ممکن ہے یہ اتنی مضحکہ خیز نہ ہوں اور یوں آج نہیں تو کل ہمیں بھی اس سلسلے میں سفارشیوں کی ضرورت پڑے۔ ہم دن بدن نظام کو جس طرح کمزور سے کمزور تر کرتے چلے جارہے ہیں، ایک دن اس کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے!


.
تازہ ترین