• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
20 برس سے یہ شعر ہر ذی شعور کے لبوں پر تھا، اس شاعر کا نام تھا غلام محمد قاصر جو ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک گائوں کا رہنے والا تھا۔ پہلے ڈیرے میں پڑھا پھر لاہور کے ایک کالج سے اردو میں ماسٹر کیا۔ لاہور کی فضا احمد ندیم قاسمی کی درگاہ پر حاضری، جلیل شاعر خوب سے خوب تر ہوتا گیا۔ پہلے اسکول میں پڑھایا اور پھر کالج میں، بے پناہ مشاعرے پڑھے اور داد سمیٹی۔ ڈیرے کے مشہور شاعر سعید اختر صاحب کی بیٹی سے شادی کی، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ 1998ء میں پتے میں سوزش ہونے کے باعث ہمیں تین کتابیں دینے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کے بیٹوں نے اپنی ہمت سے آگے پڑھا اور باپ کی محبت کو ایک کتاب کی صورت میں مدون کیا۔ پشاور کے بینظیر گرلز کالج میں تقریب کا اہتمام کیا، جس محبت اور عقیدت سے ان بچوں نے بلایا اس کے باوجود کہ میری تین پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، منظر نقوی، جلیل عالی اور ڈاکٹر شیرعلی کے ساتھ پشاور کے لئے اس خیال سے بھی روانہ ہوئے کہ کے پی کی حکومت نے کیسے اپنے علاقے کو جنت نظیر بنایا ہے۔
موٹر وے تو اپنی شان رکھتی ہے اور اس پر قائم ریسٹورنٹ بھی سلیقے کے آئینہ دار ہیں۔ ہرچند شہر کے اندر سے کالج تک نہیں گئے، لڑے کے علاقے میں یہ کالج تھا۔ بھلا ہو ٹیکسی ڈرائیور کا کہ اس کی رہنمائی میں یہ 5کلومیٹر کا ٹوٹا پھوٹا، پانی اور گندگی سے بھرپور علاقہ کوئی ایک گھنٹے میں طے کیا، سامنے ایک بلڈنگ نظر آئی جس پر بینظیر یونیورسٹی لکھا ہوا تھا۔ ایک بڑے سے کمرے کو آڈیٹوریم کا نام دیا ہوا تھا، وہاں یونیورسٹی کی طالبات اور اساتذہ ہمارا انتظار کررہے تھے، ہرچند ہم صبح ساڑھے سات بجے اسلام آباد سے روانہ ہوئے تھے۔
پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ نے اور قاصر کے دوستوں نے دو گھنٹے تک مضامین پڑھے اور قاصر کی شاعری کی ہنرمندی کا تجزیہ کیا، قاصر نے غزلوں، نظموں کے علاوہ ریڈیو کے لئے گیت، نعتیں، مرثیے، حمد اور موضوعاتی نظمیں بھی لکھی تھیں۔ ان سب تخلیقات نے ایک مجموعے کی صورت میں قاصر کی ہمہ گیر شعری فہم اسلوبیات اور بہتی نہر کا منظر پیدا کیا تھا۔ پشاور وہ شہر ہے جس نے فارغ بخاری، رضا ہمدانی، احمد فراز، محسن احسان اور خاطر غزنوی جیسے سنجیدہ شاعر اور طٰہٰ خان جیسے فی البدیہہ مزاحیہ شعر کہنے والے کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ ساری دنیا میں خاص کر احمد فراز تو کے پی کے علاقے کا جھومر تھا۔
واپس پلٹتے ہوئے جی چاہتا تھا کہ شہر پشاور کی ترقی کا جائزہ لیا جائے مگر جن کھڈوں اور ٹوٹی سڑکوں سے واپس ہورہے تھے، پہلے تو یہ سوچ آئی کہ ان شکستہ سڑکوں سے طالبات کس طرح آتی ہوں گی اور پھر پروفیسر نذیر تبسم نے بتایا کہ اگر شہر کے اندر گئے تو ایسے بہت سے نمونے نظر آئیں گے، فاصلہ بھی بھیڑ اور بے ترتیب ٹریفک کے باعث اسلام آباد تک کا سفرپانچ گھنٹوں میں طے ہوا۔
میرا جی کررہا تھا کہ بخشو کے چپلی کباب کھائوں مگر سڑک پر اڑتی بے شمار مٹی میں لپٹے کباب کھانے کو اس لئے جی نہیں کیا کہ ابھی تک ایک بیماری سے اٹھی تھی، ابھی کچھ اور تحفہ یہاں سے لیکر نہ جائوں۔ چاروں طرف افغانی برقعے تھے، سڑک کے دونوں طرف دکانیں، غربت کی نشاندہی کررہی تھیں۔ پوچھا یہ یونیورسٹی اتنی دور کہ چارسدہ قریب پڑتا تھا، کیوں بنائی گئی ہے۔ جواب تھا کہ چونکہ پچھلی حکومت کے دور میں زمین دی گئی اور بلڈنگ بنائی گئی، اس لئے صاف ظاہر ہے کہ اس حکومت کی توجہ کیوں ہو۔ یہ تقریب بھی خانہ فرہنگ ایران کے تعاون سے منعقد کی گئی تھی۔ اتنی گرمی میں بے چارہ ڈائریکٹر سوٹ پہنے بیٹھا تھا۔ یہ تعاون بھی اسلئے تھا کہ اس یونیورسٹی میں باقاعدہ فارسی پڑھانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم نے خانہ فرہنگ ایران والوں سے پوچھا کہ آپ کو کیا افتخار عارف نے ایران سے یہ تجویز بھیجی تھی، آپ نے ہنس کر فرمایا یہ میری اپنی تجویز ہے اور میں تو ہر یونیورسٹی میں فارسی پڑھانے پر اصرار کروں گا کہ آپ لوگ غالب اور اقبال کے فارسی کلام کو سمجھنے کے علاوہ ہمارے علاقوں اور زبانوں کی قربتیں اور بڑھ سکیں۔ میں نے سوچا فی الحال تو ہم چینی زبان اسکولوں میں پڑھارہے تھے، ایران سے واقعی تعلقات میں اضافہ ہوا تو یہ فارسی پڑھانے کا شوق بھی پورا کرلینگے۔ اس وقت تو ہم نے غلام محمد قاصر کے توسط سے پشاور کے گڑھے دیکھے ہیں۔


.
تازہ ترین