• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سب کو معلوم ہے کہ 2014ء میں کھیلی جانے والے گیم کے مقاصد کیا تھے۔ اس کے اسکرپٹ رائٹر اور پلیئرز کا بھی سب کو علم ہے۔ یہ سازش ناکام ہوئی تھی جس کا سہرا پارلیمان اور تمام سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے جو پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک پی اے ٹی کے خلاف ڈٹ گئیں ۔ اس مشن کا مقصد جمہوری نظام کو چلتا کرنا تھا جو کہ ناکام ہوا ۔تاہم یہ احتجاج ایک طرح سے کامیاب بھی رہا تھا یعنی اس کی وجہ سے نوازشریف حکومت اور جمہوری نظام وقتی طور پر کافی کمزور ہوا تھا۔ اب عمران خان پھر اسی راستے پر نکل پڑے ہیں۔ پاکستان اور دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت دارالخلافہ بند کرنے کا اعلان کرتی ہیں جب باقی تمام قانونی آپشنز ختم ہو چکی ہوں اور ملک کی صورتحال بند گلی میں پہنچ گئی ہو۔ ہمارے ہاں تو ایسا نہیں ہے مگر پھر بھی چیئرمین پی ٹی آئی انتہائی قدم اٹھانے کیلئے کمر کس رہے ہیں۔ کیوں؟ لگ یوں رہا ہے کہ پھر کسی نے 2014ء کی طرح ان کے کان میں کچھ کہہ دیا ہے۔ وہ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف اپنا کیس مختلف اہم اداروں بشمول عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں لڑ رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قانونی اور آئینی آپشنز کو بھی آزمارہے ہیں مگر ان کی یہ دلی خواہش ہے کہ یہ ادارے قانون اور آئین کو ایک طرف رکھ کر ان کی مرضی کے فیصلے کریں اسی لئے وہ اپنی مہم کے دوران ان پر سخت دبائو ڈالتے ہیں اس حد تک کہ ان کو بلیک میل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
باوجود تمام سیاسی جماعتوں کی بھرپور مخالفت کے پی ٹی آئی نے رائے ونڈ مارچ کا فیصلہ کیا مگر وہ بھارت کے ساتھ جنگ کی سی صورتحال کی وجہ سے کوئی مارچ یا وزیراعظم کی ذاتی رہائش گاہ کا گھیرائو تو نہ کرسکی مگر پھر بھی وہ اس جگہ جلسہ کرنے سے باز تو نہ آئی جس نے بھارت کے خلاف اور مسئلہ کشمیر پر موجود قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا۔ وہاں انہوں نے ایک اور انتہائی اقدام اٹھانے کا اعلان بھی کر دیا یعنی یہ کہ وہ محرم کے بعد اسلام آباد کو ’’لاک ڈائون‘‘کر دیں گے اور حکومت کو نہیں چلنے دیں گے جب تک کہ وزیراعظم اپنے عہدے سے استعفیٰ نہ دیں یا اپنے آپ کو آف شور کمپنیوں کے مسئلے پر احتساب کیلئے پیش نہ کریں۔ پچھلی بار کی طرح اب بھی تمام سیاسی جماعتیں ان کے اس فیصلے کی بھرپور مخالف ہیں اور آئندہ دنوں میں اپنی مخالفت مزید تیز کر دیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کا ساتھ دیں گی اور عمران خان پھر اکیلے رہ جائیں گے۔ 2014ء علامہ طاہر القادری ایک بہت بڑے پلیئر تھے جن کے پیروکاروں نے عمران خان کے احتجاج کو بہت زیادہ بھرپور بنا دیا تھا۔یہ علامہ صاحب کے ہی کارکن تھے جنہوں نے ہر وقت اور ہر موسم میں ڈی چوک پر قبضہ کئے رکھا جبکہ عمران خان کے ورکرز میں اس طرح کی کوئی سکت یا ہمت نہیں ہے ۔
پارلیمان کے اجلاس جس کا مقصد صرف اور صرف بھارتی دھمکیوں اور کشمیر کاز پر بحث کرنا تھا کا بائیکاٹ کرکے عمران خان نے ایک اور انتہائی اقدام اٹھایا ہے جس نے سب کو حیران کر دیا اور جس کی ان کی اپنی جماعت میں بھی پذیرائی نہیں ہوئی۔ ہم بات تو کرتے ہیں جمہوریت کی اور دوسروں کو لعن طعن بھی کرتے ہیں کہ وہ جمہوریت پسند نہیں ہیں بلکہ آمر ہیں مگر جس اجلاس میں پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اس میں عمران خان کا رویہ ڈکٹیٹر سے کم نہیں تھا۔ کسی نے ان کے کان میں کچھ پھونکا اور انہوں نے اس پر فوراً عمل کر دیا۔ پارٹی کے تقریباً تمام رہنما جو اس مشاورتی اجلاس میں شریک تھے بضد رہے کہ پارلیمان کے اس اجلاس کا بائیکاٹ نہ کیا جائے مگر انہوں نے کسی ایک کی نہ سنی۔ اس کی جو وجہ پیش کی گئی وہ انتہائی غیر دانشمندانہ تھی۔ کہا گیا کہ پارلیمان کے اجلاس کا بائیکاٹ ضروری ہے کیونکہ نوازشریف کی بطور وزیراعظم پوزیشن ناجائز ہے اور اس سیشن میں شرکت کا مطلب نوازشریف کو مضبوط کرنا ہوگا۔ تاہم 48 گھنٹے قبل ہی پی ٹی آئی کے ایک نمائندہ وفد نے وزیراعظم کی طرف سے بلائی گئی پارلیمانی لیڈروں کی کانفرنس میں نہ صرف بھرپور شرکت کی تھی بلکہ شاہ محمود قریشی بقول پی پی پی لیڈر قمر زمان کائرہ جو اس اجلاس میں شریک تھے نے نوازشریف کی یو این جنرل اسمبلی میں تقریر کو بہت سراہا تھا۔ اگر پی ٹی آئی اس اجلاس کا بائیکاٹ کرتی جس کے میزبان وزیراعظم تھے تو شاید اس کی بات میں کچھ وزن ہوتا مگر پارلیمان کے اجلاس کا بائیکاٹ تو سمجھ سے بالکل بالاتر ہے کیونکہ پارلیمان نوازشریف کا نام نہیں بلکہ یہ ادارہ نہ توصرف سب ممبران کا ہے بلکہ پوری قوم کا ہے اور نہ ہی وزیراعظم اس اجلاس کے میزبان تھے ۔ صرف 48 گھنٹے بعد ہی نوازشریف کی قانونی حیثیت کیسے ناجائز اور غیر قانونی ہوگئی یہ صرف عمران خان ہی بتا سکتے ہیں۔ اپنی مہم کو مزید تیز کرنے کیلئے اب چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ اس وقت تک پارلیمان یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دور رہیں گے جب تک وزیراعظم ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتے۔ اس کا مقصد بحرانی کیفیت پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ جس طرح وہ کمپین چلا رہے ہیں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کے ارکان صرف اور صرف قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی سے مستعفی ہو جائیں گے مگر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک 2014ء کی طرح قطعاً نہیں مانیں گے کہ ان کی اسمبلی کے ارکان بھی اپنی سیٹیں چھوڑ دیں اور اسی طرح پی ٹی آئی کے سینیٹرز بھی بھی ایوان بالا میں موجود رہیں گے۔ وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پرعمران خان کو جو نا کامی ہوئی تھی لگتا ہے کہ انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ باقی رہی بات نوازشریف کا اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرنے کا تو یہ ناممکن ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ٹی او آرز پر رضا مند ہوجائیں لہذا وہ چیئرمین پی ٹی آئی کے دونوں مطالبوں کو نہیں مانیں گے۔
اپوزیشن کی جماعتوں نے پارلیمان سے بائیکاٹ کے پی ٹی آئی کے فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیا اور بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارلیمان نوازشریف یا اس کے خاندان کی جاگیر نہیں ہے بلکہ تمام ممبران کا اس میں برابر کا ا سٹیک ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی میڈیا نے پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کو بار بار اچھالا اور اسے حکومت کیلئے بڑا دھچکا قرار دیا۔وہ یہ کہتے ہوئے بہت خوش ہوا کہ پاکستان میں اپوزیشن بھی نوازشریف کا ساتھ نہیں دے رہی ۔گزشتہ تین سالوں کے دوران پی پی پی کے پنجاب کے کچھ رہنما یہ سمجھ ہی نہیں رہے تھے کہ 2013ء کے عام انتخابات اور بعد میں ہونے والے ضمنی الیکشنز میں ان کی جماعت کو جو شکست فاش ہوئی اس کی وجہ نون لیگ نہیں بلکہ پی ٹی آئی ہے جس نے اس کا تمام ووٹ چھین لیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ دو دو ہاتھ کرتے انہوں نے ہمیشہ نون لیگ پر ہی حملے کئے ہیں۔ اب لگ یوں رہا ہے کہ بلاول کو کچھ سمجھ آرہی ہے کہ ان کی جماعت کی اصل حریف تو پی ٹی آئی ہے لہذا اب انہوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ سیاست کرکٹ نہیں ہے کہ ’’ہٹ دی بال، ہٹ دی بال، ہٹ دی بال ‘‘کوئی ایک چھکا لگا کر وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں بھی پارٹی میں پارلیمان کے اجلاس کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا گیا تھا مگر انہوں نے اس کو مسترد کر دیا تھا کیونکہ ہم کشمیر کے مسئلے پر ایک ہیں اور ہم دشمن کو کوئی دوسرا پیغام نہیں دینا چاہتے۔


.
تازہ ترین