• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کی آجکل بانجھ دھرتی نے بیسویں صدی میں جن ذہین و فطین لوگوں کو جنم دیا تھا وہ تین نام گنوائے جاتے ہیں-
ذوالفقار علی بھٹو، سراج الحق میمن اور رسول بخش پلیجو۔ لیکن اس ہفتے قصہ ہے سندھ کے اس ذہین و فطین سیاستدان اور اسکے باصلاحیت بیٹے ایاز لطیف پلیجو کا۔ ایاز لطیف پلیجو جسے اسکے ابا نے سیاسی طور پر عاق کردیا ہے۔
کئی برسوں کی بات ہے جب امرجلیل ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے پروگرام منیجر ہوا کرتے تھے اور بچوں کے ایک پروگرام میں ایک بچے کی ذہانت اور حاضر جوابی دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ بچہ ایسی حرکتیں کر رہا ہے گویا رسول بخش پلیجو کا بیٹا ہو۔ " لیکن وہ واقعی رسول بخش پلیجو کا بیٹا ایاز لطیف ہی تھا جو بڑا ہوکر رسول بخش پلیجو نہیں ایاز لطیف پلیجو ہی بنا۔ قومی عوامی تحریک کا سربراہ ایازلطیف پلیجو جسے بدقسمتی یا خوش قسمتی سے بڑی پارٹیوں بشمول پاکستان پیپلزپارٹی کے غیرجمہوری طریقے سے لیکن موروثی طرح اپنے والد کی جگہ پارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ بر سبیل تذکرہ یہ جو جماعت اسلامی پاکستان ہے جسے خود کو لبرل اور جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ غیر جمہوری حکومتوں اور آمروں کا ساتھ دینے کے طعنے دیتے رہتے ہیں (اور یہ بات کوئی زیادہ غلط بھی نہیں) کی اندرون پارٹی امیر سمیت تمام عہدوں پر انتخابات کے ذریعے ہی عہدیداران چنے جاتے ہیں۔ کوئی موروثیت نہیں ہوتی۔خیرتو رسول بخش پلیجو نے قومی عوامی تحریک اسکے سربراہ اپنے بیٹے سے سیاسی طورپر اپنی لاتعلقی کا اظہار پچھلے دنوں ایک پریس کانفرنس میں کرتے ہوئے اپنی پرانی پارٹی عوامی تحریک کو بحال کرنے کا اعلان کیا تو اکثر سندھ حیرت زدہ ہوکر رہ گیا ہے۔ کیا یہ جو آجکل ہر جگہ مائنس ون کا فارمولا چل رہا ہے ایاز لطیف پلیجو بھی اس نئے موسم کا شکار ہوا ہے کہ کچھ اور خاص ہے؟ سب سے چونکا دینے والا جو مبینہ انکشاف بڑے پلیجو نے کیا وہ یہ کہ بہت چھوٹی ہی عمر سے ایاز لطیف کو ایجنسیوں نے گھیرا ہوا ہے۔ اور نیز یہ بھی کہ مذہب، جنگ، جاسوسی انکے (بڑے پلیجو کے) مرغوب موضوع رہے ہیں اور وہ صورتحال سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن پلیجو چھوٹا ہو کہ بڑا انکے گرد ایجنسیوں کے گھیرائو کی افواہیں نما کہانیاں اتنی ہی پرانی ہیں جتنی پلیجو کی سیاست۔
یہ بھی کیسا دلچسپ اتفاق ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل کے کاغذات لیکر جو طیارہ جا رہا تھا اسکا بھی حادثہ پلیجو کے جنم گائوں جنگ شاہی کے قریب ہوا تھا۔ بہر حال اس حادثے سے نہ پلیجو نہ اسکی سیاست کا کوئی تعلق تھا۔ پاکستان میں محلاتی ساز شوں کی کہانیاں اگر لکھی جائیں تو ہالی ووڈ کی صفر صفر سات یا زیرو زیرو سات فلموں کو بھی مات دیدیں۔ لیکن یہ کوئی محلاتی سازش کی کہانی نہیں عوامی سازش کی کہانی ہے۔ امید کی سازش کی کہانی۔ اتنی ہی پرانی جتنی رسول بخش پلیجو کی سیاست جسکا آغاز انہوں نے اپنی طالب علمی سے نیشنل مسلم لیگ گارڈز اورمسلم لیگ سے کیا تھا۔ یہ قیام پاکستان کے دن تھے۔ ٹھٹھہ میں محمد ابراہیم جویو کے اس شاگرد نے انقلابی خیالات اپنے استاد سے سیکھے۔ لیکن گہرے مطالعے کی عادت، اختلاف رائے کی طبعیت ،حافظے، ذہانت، حس مزاح نے پلیجو کو یگانگت بخشی ہے۔ وہ مائوزے تنگ سے بھی متاثر ہیں تو محمد علی جناح سے بھی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں لیکن وکالت کو انہوں نے شاید ہی سنجیدہ لیا ہو۔ انہوں نے عملی سیاست سندھ میں حیدربخش جتوئی کی ہاری کمیٹی سےکی جب وہ لاڑکانہ میں وڈیروں کے مقابلے میں اپنے ایک ساتھی کی انتخابی مہم میں شریک تھےاور جہاں ایک موقع پر حیدر بخش جتوئی اور انکے ساتھیوں پر وڈیروں نے تشدد بھی کیا تھا۔ جی۔ ایم سید کی بزم صوفیاء سندھ، ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) میں بھی سرگرم رہے۔ لیکن انکے سیاسی عروج کا زمانہ تب شروع ہوتا ہے جب انہوں نے نیپ اور جی ایم سید سے علیحدگی کے بعد حفیظ قریشی کے ساتھ سندھی عوامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ ایک جریدہ ماہنامہ 'تحریک بھی جاری کیا۔ ایک دفعہ انہوں نے تحریک میں اپنے اداریے میں لکھا تھا ’’ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان سندھیوں کیلئے اجنبی بن جائے گا۔‘‘یہ جنرل ضیا کا زمانہ تھا۔ مارشل لا کے شروعاتی دنوں میں بدین میں ہاریوں کے کنونشن منعقد کرنے پر انہیں ان کے ساتھی فاضل راہو سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ وہ ایک طویل عرصے تک جیلوں میں رہے حیدرآباد، کراچی اور پھر کوٹ لکھپت لاہور۔ لیکن یہی وہ وقت ہے جب ایاز لطیف سمیت ان کا خاندان اور ان کی پارٹی برے دنوں کے باوجود ضیاء آمریت کے خلاف سرگرم رہے۔ ڈٹے رہے۔ پھر وہ صحافیوں کی تحریک ہو ، کہ بھٹو کی پھانسی یا پھر ایم آر ڈی تحریک۔
وہ انیس سو پچاسی میں جیل سے رہا کئے گئے۔ لیکن جیل جانے سے پہلے والے پلیجو اور جیل سے رہا ہوکر آنے والے پلیجو کے اب مالی حالات میں زمین آسمان کا فرق تھا اور یہ فرق آج تک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
اسی زمانے میں جیل سے انہوں نے اپنے بیٹے بمشکل چودہ سالہ ایاز لطیف کو ایک خط لکھا تھا کہ بیٹا میں نے سنا ہے کہ تم نظریات سے دور چلے گئے ہو۔ وہ خط کتابی شکل میں موجود ہے۔ انہوں نے سال دو ہزار تیرہ میں پھر اسی ایاز لطیف کو قومی عوامی تحریک کا اپنے جانشیں کے طور پر صدر بھی بنایا۔ اب پھر اسے بتیس صفحات پر مشتمل ایک اور خط لکھا جس میں انہوں نے ایاز لطیف کو پارٹی نظریات اور ڈسپلن سے روگردانی سمیت سنگین الزامات عائد کئے۔ بالآخر انہوں نے گزشتہ دنوں اسوقت ایاز لطیف اور قومی عوامی تحریک کوخود سے سیاسی طور پرفارغ کردیا جب ایاز لطیف نے پیپلزپارٹی حکومت کے منصوبے ذوالفقار آباد کے خلاف تحریک شروع کر رکھی ہے اور خود علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایاز لطیف کا کہنا ہے انہیں فریال تالپور کے کہنے پر علیحدہ کردیا گيا کہ انکے چچا اور کزن سسی پلیجو کو پارٹی سے خارج کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ بہت سے لوگ اسے آج کا کل سے جھگڑا کہتے ہیں۔ یعنی کہ تو غروب ہو رہا ہے میں طلوع ہو رہا ہوں۔ جبکہ کئی لوگ اسے پلیجو کا آخری عمر میں تاریخ کا درست فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ اگر یہ واقعی تاریخ میں درستگی کا زمانہ ہے تو پھر مجھے تعجب نہیں ہوگا کہ کسی دن بلاول بھٹو بھی اپنے والد آصف زرداری کو سیاسی طور پرفارغ کردیں۔


.
تازہ ترین