• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
13اور 14اگست کی نصف شب جب میرا پاکستان 68کی حد عبور کر کے 69ویں برس میں داخل ہو رہا تھا ،میں بھی ان لاکھوںلوگوں میں شامل تھا جو اس وطن سے محبت کا اظہار کرنا چاہتے تھے ۔بارود کے دھوئیں میں ایک مصروف شاہراہ سے گزرتے ہوئے میں ایک طرف تو نوجوان نسل کے جذبہ محبت کو دیکھ کر فخرکر رہا تھالیکن دوسری جانب یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ ان کی صلاحیتوں اور وطن سے محبت کے جذبے کو یکجا کر کے قوت کی صورت میں قومی ترقی کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا جاسکا۔ان کی رہنمائی کیو ں نہیں کی گئی۔نوجوان تو کچی مٹی کی طرح ہوتے ہیں، انہیں سانچے میں ڈھال کر خوبصورت شکل دینا اور انہیں معاشرے کے لئے منفعت بخش بنانا تو قیادت کی ذمہ داری ہے۔کیوں آج کا نوجوان بے راہ روی کا شکار ہے۔کیوں تعمیر کے بجائے تخریب اس کے لاشعور پرحاوی ہے؟
موٹر سائیکلوں اور کار وں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر دوڑنا اور لوگوں کی گاڑیوں میں سوتر بم اور پٹاخے پھینک کر دوسروں کو اذیت میں مبتلا کر کے قہقے لگاناجشن آزادی ہے ؟ان تمام خامیوں اور بے راہ روی کے باوجود نوجوان نسل معصو م اور بے قصور ہے کیونکہ انہیں رہنمائی نہیں ملی۔انہیں اچھائی اور برائی میں فرق بتانے والا کوئی نہیں۔ انہیں یہ بتانے والا کوئی نہیںکہ دوسروں کو اذیت میں مبتلا کر کے سکون حاصل کرنا محبت نہیں نفرت کا اظہار ہے۔محبت کا اظہار دکھ بانٹنے سے ہوتا ہے۔جشن ِآزادی ایک آواز اور پوری قوت کے ساتھ وطن سے محبت کا اظہار کرنے سے منائی جانی چاہیے۔لیکن ہمارے رہنمائوں نے نوجوان نسل کو وطن سے محبت کا وہ درس نہیں دیا جس کی اس دھرتی کو ضرورت تھی۔دھرتی سے محبت کی اس کمی نے نوجوان نسل کو یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں پھنسائے رکھا۔
قومیں اپنا یوم آزادی ترقی کی جانب ایک قدم بڑھا کر تدبر اور فخر کے ساتھ مناتی ہیںاوہجوم ر اپنی تنزلی کا جشن بے حسی کے ساتھ مناتے ہیں۔یہی فرق ہے قوم اور ہجوم میں۔معاشروں کو سدھارنے میں اہل قلم کا تاریخ میں کلیدی کردار رہا ہے۔شاعر ایک انتہائی حساس طبقہ ہے اور معاشرے کی سوچ کااور رویے کو منعکس کرتا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ اہل قلم بھی اسی بے حسی کا اظہار کر رہے ہیں جو قوم میں موجود ہے۔کئی دہائیوں سے ایسا کوئی ملی نغمہ سامنے نہیں آیا جس نے قوم میں زندگی کی نئی لہر پیدا کی ہو۔60اور 70کی دہائیوں کے علاوہ اہل قلم نے دلوں کو چھونے والا کوئی ایساملی نغمہ تحریر نہیں کیا جس نے ہجوم کو قوم بننے پر اکسایا ہو۔60اور 70کی دہائیوں میں لکھے گئے نغمے جنھوں نے ہجوم کو قوم بنادیا تھا۔آج وہ بھی بے اثر ہوچکے ہیں۔ایسے ہی بے حس معاشرے جنم لیتے ہیں۔جہاں قصور کے دلخراش واقعات بھی ہوتے ہیں اور جاوید اقبال جیسے درندے سیکڑوں معصوم بچوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر تیزاب کے ڈرموں میں پھینک کر اذیت پسندی کا اظہار کر تے ہیںاور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ایسے معاشروں میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔اس قدر گھنائونے جرائم ان بے راہ رو معاشروں میں روپذیر ہوتے رہیں گے۔ معاشرے کی بے حسی کاعالم یہ ہے کہ اس قدر سنگین واقعات چند روز تک یاد رکھے جاتے ہیںاور این جی اوز بیرونی فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے ان واقعات کو عالمی سطح پر اچھالتے ہیں۔سیاستدان اپنی سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں اور پھر کوئی نیا دلخراش واقعہ رونما ہوتا ہے اور پہلے کی جگہ لے لیتا ہے۔یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ معاشروں کی تباہی اور انسانیت کی تذلیل میں پولیس کا کلیدی کردار ہے۔بڑے شہروں کی پولیس تو ناقابل اصلاح ہے کیونکہ ان کی رسائی اقتدار کے ایوانوں تک ہوتی ہے۔ان کے "کارناموں"کے پیچھے مقتدر شخصیت کی آہنی دیوار ہوتی ہے۔اور کوئی ان پر تنقید کرنے یا سوال کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔جبکہ چھوٹے علاقوں میںبرسر اقتدار سیاسی جماعت کا رہنما اپنی مرضی کے SHO'sتعینات کراتا ہے۔وہ صرف اس لیے کہ علاقے کے لوگوں کے جائز وناجائز کام ہوتے رہیں بلکہ اس کا اصل مقصد ان سیاستدانوں کے جرائم اور ناجائز کاموں کا تحفظ اور پردہ پوشی ہوتی رہے۔اعلی ٰ پولیس کے ایک طبقے کے پاس ایک جواز موجود ہے کہ جرم کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ انسان۔جرم نے انسان کے ساتھ ہی جنم لیااور جرائم آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے۔لیکن پولیس کے اس مخصوص طبقے کے پاس اس کے سد باب کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔جرائم کا آبادی کے ساتھ بڑھانے کا جواز ان کی غیر پیشہ وارانہ سوچ کی عکاس ہے۔ان کے پا س اس بات کا بھی جواب موجود نہیں کہ معاشرے میں جرائم کے اضافے کو روکنے میں تو وہ ناکام ہے لیکن پولیس کے محکمے میں کیوں کرپشن بڑھ رہی ہے؟لیکن قوم کی قیادت کی بے راہ روی کے باوجود آج کے نوجوان سے مایوس نہیں۔آج کا نوجوان پختہ ذہن رکھنے کے علاوہ زیادہ باشعور ، ذی ہوش اور تعلیم یافتہ ہے۔ان کی صلاحیتوں کو طاقت بنانے کے لئے کسی رہنما کی ضرورت ہے کیونکہ اس نوجوان کو ہر دور میں خواہ وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی، برسر اقتدار قیادت نے ان کی طاقت کو اپنی ضرورت اور مفادات کے لئے استعمال کیا اور انہیں ان کے اصل مقصد اور راستے سے ہٹا دیااور انہیں گروپوں میں تقسیم کردیا جس کا نتیجہ آج قوم کے سامنے ہے۔میرا پاکستان آج 68برس کا ہوچکا ہے لیکن اب بھی اپنے پائوں پر کھڑاہونے کے قابل نہیں۔وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ترقی کی جانب ایک قدم بڑھاتا ہے تو نادیدہ قوتیں اسے دوقدم پیچھے دکھیل دیتی ہیں۔کیا وہ قوتیں ہمارے درمیان موجود ہیں؟انہیں تلاش کریں۔
تازہ ترین