• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب حکومت کی کامیاب مینجمنٹ کی بدولت پاک چین اقتصادی راہداری کے مشرقی روٹ پر کسی بھی طرح کا اصلاحی جائزہ نہ لیا گیا اور لاہور ،کراچی موٹروے کا ڈھول اتنا پیٹا گیا کہ پنجاب کے باقی علاقوں کی جانب کسی کی کوئی توجہ نہ رہی۔ اس اقتصادی راہداری سے کچھ اہم اور دور رس فائدے حاصل کئے جا سکتے تھے لیکن پنجاب میں اس حوالے سے کوئی تخلیقی کام نہیں کیا گیا۔ پنجاب کے سر سبز و زر خیز علاقے ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ لگایا گیا ہے اس سے زیادہ عقلمندی آج تک دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ تھر کے صحرا میں ٹینکروں کے ذریعے پانی لا کر وہاں ہائیڈل پاور پروجیکٹ لگا کر پانی سے بجلی پیدا کی جائے۔ نئی شاہرائیںبنانے کی طرف کسی کی توجہ نہیں اور پہلے سے موجود نیٹ ورک کو ہی مزید بہتر کیا جا رہا ہے۔ پسماندہ علاقوں کی جانب کسی بھی قسم کی ترقیاتی اسکیموں کا آغاز نہیں کیا گیا بلکہ میٹرو بس کے شہر لاہور میں ہی اورنج ٹرین کا منصوبہ شروع کر دیا گیا۔ 160ارب روپے قرضہ لے کر لاہور کے اند ر صرف 27 کلو میٹر چلنے والی اورنج ٹرین کا پاک چین اقتصادی راہداری سے کیاتعلق لیکن حکمرانوں نے ذاتی ایجنڈے کو سی پیک کا حصہ بنا لیا۔ حالانکہ روڈ کنسٹرکشن سے وابستہ ماہر ین کے مطابق اس بجٹ سے پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں کم از کم سولہ ہزار کلومیٹر جی ہاں16 ہزار کلو میٹر کی نئی سڑکوں کی تعمیر بہ آسانی ممکن ہو سکتی تھی ۔لاہور، کراچی موٹروے (اب’’مقاصد ‘‘پورے ہونے پر جس کا نام پشاور، کراچی موٹروے رکھ دیا گیا ہے)کے حوالے سے چند حقائق سے آگاہی ضروری ہے تاکہ باریک بینی سے سیاسی بیانات کا جائزہ لیا جا سکے۔ آج سے 19 سال پہلے لاہور اسلام آباد موٹروے میں اپنوں کو نوازنے کیلئے فاصلہ بڑھایا گیا اور دلیل یہ تھی کہ فاصلہ زیادہ اس لئے ہے کہ مختلف علاقوں کے عوام کو فائدہ ہو۔ اس وقت یہ بھی کہا گیا تھا کہ موٹروے کیساتھ انڈسٹریل زون بنائے جائینگے، آج تک وہاں صرف قیام و طعام اور آرام گاہیں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ا ب پسماندہ علاقے نظر انداز کر کے دوبارہ اپنوں کو نوازا جارہا ہے اور اب فاصلے کم کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن یہاں بھی بد دیانتی سے کام لیا گیا۔ اگر پاک چین راہداری اور پشاور، کراچی موٹروے کے فاصلے کو کم کرنا ہی اصل مقصد تھا تو لاہور اسلام آباد موٹروے کے کوٹ مومن انٹر چینج سے سرگودھا وہاں سے جھنگ اور شورکوٹ سے خانیوال تک موٹروے بنا کر فاصلوں کو حقیقت میں کم کیا جا سکتا تھا۔ پہلے سے ہی موٹروے پر واقع ضلع فیصل آباد اور نیشنل ہائی وے پر واقع اضلاع کو لاہور کراچی موٹروے کے روٹ میں شامل کیا گیا ہے جبکہ جن اضلاع سے موٹروے یا نیشنل ہائی وے تک پہنچنے کیلئے ہی کم از کم پچاس کلومیٹر سفر طے کرنا پڑتا ہے، ان سب اضلا ع کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ 1849ءمیں ضلع کا درجہ پانے والے جھنگ میں آج بھی موٹروے یا نیشنل ہائی وے کا گزر نہیں ہے۔ اگر گوجرہ،شورکوٹ موٹروے مکمل ہو جائے تو بھی جھنگ شہر سے موٹروے کا کم از کم فاصلہ 38 کلومیٹر ہو گا۔ اتناہی فاصلہ ایک اور اہم شہر سرگودھا سے موٹروے کا ہے، اگر واقعی فاصلے کم کرنے کی فکر ہوتی تو یہ دونوں اہم شہر موٹروے کے روٹ میں بہ ا ٓسانی آ سکتے تھے۔ لاہور کو اس منصوبے میں شامل کرکے اب مہارت سے اس منصوبے کا نام بدل کر پشاور، کراچی موٹروے رکھ دیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر پشاور کراچی موٹروے کا نام پہلے ہی سامنے آجاتا تو شہر لاہور اس منصوبے میں کیسے شامل ہوتا؟
لاہور سے ملتان تک اس پروجیکٹ کی فنڈنگ کے حوالے سے بھی قرضہ لے کر کام چلایا جا رہا ہے۔ گوجرہ، شور کوٹ موٹروے حکومت برطانیہ کے تعاون سے بنایا جا رہی ہے اور 9 ارب روپے سے زائد کی گرانٹ لی گئی ہے جبکہ فیصل آباد ملتان موٹروے کے باقی حصوں کو مکمل کرنے کیلئے ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے10 ارب روپے کا قرض لیا گیا ہے۔ ایشین انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک سے لیا جانے والا اربوں روپے کا قرضہ اس سے الگ ہے۔ اقتصادی راہداری کے نام پر اپنی خواہشات کو پورا کیا جا رہا ہے،اپنے من پسند شہروں کو نوازا جا رہا ہے اور کہانیاں سنائی جا رہی ہیں کہ یہ پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ 46ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ موٹروے بنانے کے شوق نے ہی حکمرانوں کو اتنا قرضہ لینے پر مجبور کیا۔ فاصلوں اور سڑکوں سے متعلق مسائل کا حل جلد بازی میں موٹروے بنانا نہیں ہے۔ موٹروے کا مقصد شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑنا ہی نہیں ہوتا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ موٹروے یا نیشنل ہائی وے تک جانے کیلئے بہترین راستے موجود ہوں تاکہ پنجاب کے دوسرے پسماندہ اضلاع سے اس موٹروے تک جلد اور محفوظ رسائی ممکن ہو سکے۔ مثال کے طور پر بہاولنگر سے موٹروے تک آتے آتے ہی پانچ سات گھنٹے لگ جائیں تو موٹروے کے کی کہانیاں سنانے کا کیا فائدہ؟
ان تمام حقائق کے بعد اگر کوئی ان منصوبوں میں اصلاح کی بات کرے تو وہی جذباتی تقریریں شروع ہو جاتی ہیں کہ عظیم الشان پاک چین اقتصادی راہداری کو متنازع بنا کر ملکی ترقی میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے لیکن ان باتوں کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ قوم کا اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران موٹروے بنا کر اپنی تعریفیں کروا لینگے لیکن اربوں ڈالر کا قرضہ تو عوام ہی کو واپس کرنا پڑے گا۔


.
تازہ ترین