• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیمی سرقہ، ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد نے اپنا جواب جمع کرادیا

کراچی(اسٹاف رپورٹر) وفاقی جامعہ اردو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد نے جامعہ کراچی اور ہائر ایجوکیشن کے خط کی روشنی میں اپنا جواب جمع کرادیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ  ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعہ کراچی کو جو رپورٹ ارسال کی ہے اس میں مماثلت کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے اورتحقیقی مقالہ جات میں سرقہ نویسی سے متعلق قوانین کو نظر انداز کیا گیا ہے خط میں کہا گیا ہے کہ ہائرایجوکیشن کمیشن کی جامعہ کراچی کو ارسال کی گئی رپورٹ میں پی ایچ ڈی کے مقالے کے صفحات کی تعداد 383تحریر تھیں۔اس کے علاوہ اس میں ایچ ای سی نے حوالہ جات کے صفحات کی تعداد58لکھی ہے جبکہ حقیقت میں حوالہ جات کے صفحات کی تعداد53ہے۔مقالہ جات کے شروع کے8 صفحات کو شامل نہیں کیا۔ ایچ ای سی کی رپورٹ کے مطابق مقالے میں مماثلت 16.89فیصد ظاہر کی گئی ہے جبکہ اگر ان صفحات کو شامل کرلیا جاتا تو یہ تناسب محض16فیصد رہ جاتا اور تمام صفحات کو شامل کرلیا جاتا تو کل صفحات383کے بجائے391بنتے اور مماثلت صرف14فیصد ہوجاتی جبکہ ایچ ای سی کے اپنے قانون کے مطابق کسی بھی تحقیقی مقالے میں20فیصد سے کم مماثلت کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایچ ای سی کے قوائد اور جامعہ کراچی کی پالیسی کے مطابق تحقیقی مقالہ جات سے متعلق فرضی اور گمنام اعتراضات کو زیر غور نہیں لایا جاتا جبکہ پروفیسر ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد کے تحقیقی مقالہ جات پرجو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ فرضی اور جعلی ناموں سے کئے گئے ہیں ہےخط میں کہا گیا ہے کہ۔2012میں بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پروفیسر ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد کے22تحقیقی مقالوں پر سرقہ نویسی کا الزام لگایا تھاجس میں شکایت کنندہ کا نام بھی ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وفاقی جامعہ اردو کی انتطامیہ نے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس  ڈاکٹر غوث محمد کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی برائے سرقہ نویسی قائم کی جس کے تحت ان کے مقالوں کی فنی اور نظری تحقیقات کے لئے دو کمیٹیاں قائم کی گئیں جس میں جامعہ کراچی کے شعبہ معاشیات کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمان اور مشیر شیخ الجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر فہیم الدین بطورارکان شامل تھے اس کے علاوہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نمائندہ ڈاکٹر پروین منشی بھی مذکورہ کمیٹی میں شامل تھیں۔ ان کمیٹیوں کی رپورٹ کی روشنی میں پروفیسر ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد کے تمام مقالہ جات کو ہر پہلو سے جانچا گیا اور انہیں سرقہ نویسی سے بری الذمہ قراردیا گیا۔انھون نے کہا  جامعہ کراچی کو ارسال کئے گئے خط میں دوبارہ ان کے 22مقالہ جات میں گمنام ممتحن سے جانچ کروا کر سرقہ نویسی کا الزام لگایا گیا جبکہ 2012میںان مقالہ جات کے سلسلے میں انہیں پہلے ہی سرقہ نویسی کے الزام سے مبرا قراردیا جاچکا ہے۔ اس ضمن میں ایچ ای سی نے آئین پاکستان کے آرٹیکل13A کی خلاف ورزی کی ہے جس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ اگر کسی آدمی پر الزام کے بعد اسے بری الذمہ قرارد یا جائے تودوبارہ اس کی تحقیقات نہیں کرائی جاسکتیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ  ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں940حوالہ جات میں سے 161حوالہ جات پر ایچ ای سی نے جو اعتراضات کئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مفتی محمد شفیع  ؒ کی معروف تفسیر معارف القرآن کا حوالہ ان کے اپنے الفاظ میں کیوں دیا جبکہ سوال یہ پیدا ہوتا  ہے کہ کسی بھی مفسر کی تفسیر کے الفاظ اور جملوں کو کیونکر تبدیل کیا جاسکتا ہے۔بہرحال قانون شہادت واضح طور پر کہتا ہے کہ جس شخص پر الزام لگایا گیا ہے، اس سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اسے صفائی کا موقع ضرور دینا چاہئے اور ایچ ای سی سرقہ نویسی پالیسی کا بھی یہ کہنا ہے کہ زیرالزام شخص کو صفائی کا موقع دیا جائے گا جبکہ ایچ ای سی نے پروفیسر ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد کو اس بارے میں نہ کوئی خط لکھا اور نہ صفائی کا موقع فراہم کیا گویا ایچ ای سی خود ہی مدعی تھی، خود ہی منصف تھی اور خود ہی اس نے سزا بھی تجویز کردی۔
تازہ ترین