• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
23؍ستمبر کو روس کے صرف 70فوجی پاکستانی سر زمین پر اترے جو پاک فوج کے ساتھ ایک مشترکہ مشق میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ رشین میں اسے دروزبھا Druzhbha-2016کا نام دیا گیا جس کا انگریزی ترجمہ فرینڈشپ 2016ہے۔ اسے اینٹی ٹیرر ایکسرسائز بھی کہا گیا۔ یہ ٹائمنگ تھی یا کچھ اور کہ اس معمولی سے واقعہ نے واہگہ پار بھونچال کی کیفیت پیدا کر دی۔ الزام آیا کہ یہ ایکسرسائز آزاد جموں و کشمیر، گلگت اور بلتستان جیسے ’’متنازع‘‘ علاقوں میں ہونے جا رہی ہے۔ اس سمے جبکہ پاکستان کراس بارڈر دہشت گردی میں ملوّث ہے، روس کو اس تنازع کا حصّہ نہیں بننا چاہئے تھا۔ یہ گوہر افشانی بھی ہوئی کہ پاکستان، امریکہ کا پروردہ اور پٹھو ہے جبکہ بھارت، روس دوستی ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ گلہ بھی کیا گیا کہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں سے پہلے بھارت کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا کیونکہ روس، بھارت مشترکہ فوجی مشقوں کی ایک تاریخ ہے جو 2003سے ہر دو برس بعد ہوتی آ رہی ہیں بھارتی خیال کے مطابق ماسکو نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ پیغام دیا ہے کہ اسے اب نئی دہلی کی ضرورت نہیں رہی اور اسلام آباد کی شکل میں اس نے نیا اتحادی ڈھونڈ لیا ہے۔ فی الحقیقت دہلی کا غم دہرا ہے۔ روس اور چین کے مابین دفاعی تعاون میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی ستمبر دونوں ملکوں کے بحری دستوں نے پہلی بار چین کے مغربی سمندر میں مشترکہ مشقوں میں حصّہ لیا ہے۔ نئی دہلی کو چین، روس دفاعی تعاون میں بھی بالواسطہ پاکستان ہی کا فائدہ دکھائی دے رہا ہے۔ یوں یہ اندیشہ ہائے دور دراز بھارت کی راتوں کی نیند حرام کئے ہوئے ہے۔
جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ نئی دہلی کا یہ سب واویلا بلاجواز ہے۔ پاک، روس تعلّقات میں ہنوز کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوپائی۔ 2014میں ہتھیاروں کی فراہمی پر سے پابندی ضرور اٹھائی گئی تھی مگر ماسوائے چار عدد ایم آئی۔35ہیلی کاپٹرز کا سودا طے پانے کے اس کے تحت کوئی قابل ذکر لین دین نہیں ہوا۔ فریقین کا ایک مشاورتی گرو پ گاہے بہ گاہے میٹنگز کرتا رہتا ہے جن میں دونوں طرف سے خارجہ اور دفاع کی وزارتوں کے اہلکار شرکت کرتے ہیں۔ اقتصادی شعبہ کو دیکھا جائے تو کراچی، لاہور مائع قدرتی گیس LNGپائپ لائن کی تعمیر کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ سفارتی سطح پر البتہ ایک اہم ڈیولپمنٹ ضرور ہوئی ہے کہ ماسکو نے شنگھائی تعاون تنظیم SCOمیں پاکستان کی شمولیت کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ایک زمانے میں اس نے روس کی فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ روس نے جب مغربی ممالک سے فوڈ سپلائز پر ازخود پابندی عائد کر لی تھی اور متبادل ذرائع کی تلاش میں تھا تو مشکل کے اس سمے پاکستان نے زرعی اجناس مہیا کی تھیں۔ یادش بخیر، مدتوں پہلے روس نے ہمیں اسٹیل مل بھی لگا کر دی تھی جو اب ملبے کا ڈھیر ہے۔ روس پھر سے اگر اس میں نئی روح پھونک سکے تو شاید اس نئی نویلی محبت کا ایک بڑا انعام ہو گا۔
اس منظرنامے سے کسی طور بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ روس نے بھارت کے ساتھ کٹّی کر لی ہے اور پاکستان اس کی جگہ لینے جا رہا ہے۔ ماسکو، دہلی اسٹرٹیجک پارٹنرشپ سات دہائیوں پر محیط ہے اور فریقین کے اقتصادی اور دفاعی مراسم بلند ترین سطح پر ہیں۔ اب بھی بھارت کیلئے روس اسلحے کا سب سے بڑا سپلائر ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے نئی دہلی اور ماسکو میں بعض شکوک و شبہات بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں جن کا دبا دبا سا تذکرہ اقتدار کی غلام گردشوں میں کچھ عرصے سے ہو رہا تھا جو اب میڈیا تک بھی پہنچ گیا ہے۔ نئی دہلی میں نئی سوچ ابھر رہی ہے کہ دوطرفہ تعلقات ممکنہ بلندیوں کو چھو چکے اور اب اینٹی کلائمیکس شروع ہونے والا ہے۔ اب نئی دہلی سب انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنا چاہتا تو اسلحے کیلئے مغربی منڈیوں میں کی جانے والی تاک جھانک ماسکو کو بھی اچھی نہیں لگی۔ امریکہ، انڈیا کی دس بلین ڈالر کی اسلحہ ڈیل پر روس کے اپنے تحفظات ہیں جن کا اظہار کیا جا چکا۔ موجودہ ٹرینڈ کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اگلے عشرے کے دوران 250بلین ڈالر کے اخراجات سے بھارتی دفاعی اثاثوں اور اسلحہ خانوں کی تشکیل نو میں بھی زیادہ عمل دخل نئے مربیان یعنی امریکہ اور یورپ کا ہو گا۔ رویّہ کی اس تبدیلی کی بھارت کے پاس معقول وجوہ ہیں کہ روس نے اسے Taken for granted لینا شروع کر دیا تھا۔ وزارت دفاع کو ایئرکرافٹ کیریئر آئی این ایس وکرم ادیتا کی تعمیر کے حوالے سے متعدد شکایتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ روس نے ٹینڈر شرائط کا پاس نہیں کیا۔ کوٹ کی گئی قیمت کو تین گنا تک بڑھا دیا اور تکمیل میں بھی پانچ برس کی دیر ہوئی۔ حال ہی میں بھارت نے ایک اور ایئرکرافٹ کیریئر کیلئے ٹینڈر فلوٹ کیا ہے۔ روس نے بھی کاغذ جمع کرائے ہیں مگر ٹریک ریکارڈ کے کارن بات بنتی دکھائی نہیں دیتی۔ وزارت دفاع والے پرانی فائل نکال کر بیٹھ گئے ہیں۔
میک ان انڈیا Make in Indiaپروگرام کے حوالے سے بھی روس کی کارکردگی تسلّی بخش نہیں رہی جسے بھارت کے اندر Indo Russian 5th generation fighter jetکی مینوفیکچرنگ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر وہ توقعات پر پورا نہ اتر سکا۔ ایسے میں بھارت کے اندر یہ سوچ تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ صرف روس پر تکیہ کرنے کی بجائے کھلے مقابلے میں دوسرے سپلائرز کو بھی پرکھا جائے کیونکہ روسی مناپلی کا زیادہ تر فائدہ خود روس کو ہوا ہے۔ بھارت میں روس کے حمایتیوں کی بھی کوئی کمی نہیں جن کا کہنا ہے کہ ایئرکرافٹ کیریئرز، سب میرینز، جدید لڑاکا جہازوں اور نان نیوکلیئر کروز میزائل براہموس کے حوالے سے معاملات اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ فریقین میں سے کسی کیلئے بھی پیچھے ہٹنا چنداں آسان نہیں ہو گا۔ سو اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، ابھی کچھ کہنا پیش از وقت ہو گا۔


.
تازہ ترین