• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برہان مظفر وانی’سدا رہے اس کا نام پیارا‘ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کا کم عمرمجاہد، محمد بن قاسم تو نہیں تھا جس نے 17سال کی عمرمیں سندھ کو فتح کرکے کفرستان ہند میں اسلام اور مسلمانوں کے داخلے کادروازہ کھول دیا۔ لیکن اتنا ضرورہے کہ اس نے مسلمانان کشمیر کے سینوں میں سلگتی ہوئی چنگاری کو ایک بار پھر بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل کردیا۔ اس کے نتیجے میں آج وادی کے گوشے گوشے سے آزادی کے حق میں نعرے بلند ہو رہے ہیں اور کشمیری نوجوان، بچے اور بوڑھے، عورتیں اور مرد پاکستان کے سبزہلالی پرچم اٹھائے مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوج کی بربریت کانہایت دلیری سے سامنا کر رہےہیں۔ سینوں پر گولیاں کھارہے ہیں اورپیلٹ گنوں کے چھرے اپنے جسموں اور چہروں پر روک رہے ہیں۔ برہان وانی، جسے تاریخ یقیناً کسی دن کشمیر کی تحریک حریت کے عظیم ترین شہدامیں شمار کرے گی۔ 15سال کی عمرمیں جہاد کے لئے نکلا اور زندگی کے21سال بھی پورے نہ کئے تھے کہ شہادت کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہوگیا۔بچپن میں جب وہ کھیلنے کودنے کے دور سے گزررہاتھا۔ کرکٹ اس کا پسندیدہ کھیل تھا اور وہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت کی طرف سے کھیلنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ بڑا ہو کر بھارتی فوج میں بھرتی ہوناچاہتاتھا۔ اس کے ذہن میں جہادی بننے کاکوئی تصور تھا نہ بندوق اٹھاکرچلنے کا! لیکن اس نےبھارتی فوجیوں کو نہتے کشمیریوں پر جب سنگین تانے، گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کو پامال کرتے، بے نام قبرستان آباد ہوتے، عقوبت خانوں میں بے گناہ مرد و زن کو زنجیروں میں جکڑے لہولہان دیکھا تو اس کے معصوم دل و دماغ میں سوالات اٹھنے لگے کہ اس کے ہم وطنوں پر یہ ظلم، یہ ستم کیوں؟ آہتہ آہستہ اس کے صبرکاپیمانہ لبریز ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ 5 اکتوبر 2010 کافیصلہ کن دن آپہنچا۔ اس شام اس نے اپنی محبت کرنے والی ماں کو نہایت ادب و احترام سے بتایاکہ وہ کچھ دوستوں سے ملنے باہر جا رہا ہے۔ اجازت ملنےپر وہ گھرسے نکل کے آگیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ پتہ چلا کہ وہ حزب المجاہدین میں شامل ہوگیاہے اور اس کے ایک گروپ کی کمان کررہاہے۔ اس کے والد مظفر وانی بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کو اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔ تعلیم کو فروغ دے رہاہوں جبکہ میرابیٹا آزادی کی تحریک کوفروغ دے رہاتھا۔اپنافرض نبھاتے ہوئے شہید ہوگیا۔ برہان سے پہلے میرابیٹاخالد بھی شہید ہوا۔ اسے اس وقت تشدد کانشانہ بناکر مار دیا گیاجب 13 اپریل 2015 میں وہ اپنے دوستوںکے ساتھ پکنک منارہاتھا۔ وہ جہاد میں شامل نہیں تھا مگر سیکورٹی فورسز کو اس پر برہان سے ملنے کاشبہ تھا۔ خالد برہان سے عمرمیں چار سال بڑاتھا۔ اس کی شہادت کے کوئی سواسال بعد 9 جولائی 2016 کو برہان وانی ہندواڑہ کے قصبے کرناگ میں اپنے دوساتھیوں سرتاج احمد اور پرویز احمد لشکری کے ساتھ گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ وانی وادی کشمیرکاایک معزز قبیلہ ہے۔ اس کے ایک نامور فرزند خواجہ عبدالصمد وانی نصف صدی تک صحافت کے میدان میں آزادی کشمیرکے لئے قلمی جہاد کرتے رہے۔ ان کی رحلت کے بعد ان کے فرزند اطہرمسعود وانی نے یہ مورچہ سنبھال رکھاہے۔ اس بہادر قبیلے کے دوسگے بھائیوں نے یکے بعد دیگرے شہادت کا رتبہ حاصل کرکے ثابت کر دیا کہ کسے کہ کشتہ نہ شداز قبیلہ نیست۔بھارت مقبوضہ کشمیرمیں جاری تحریک آزادی کوپاکستان کی دہشت گردی قرار دیتا ہے اور الزام لگاتاہے کہ دہشت گرد کنٹرول لائن پارکرکے بھارتی فوج کے موچوں اور کیمپوں پر حملے کرتے ہیں۔ مگربرہان وانی کی شہادت یہ ثابت کرنے کے لئےکافی ہے کہ مقبوضہ ریاست میں چلنے والی تحریک مقامی ہے اور مقامی نوجوان ہی اسے آگے بڑھارہے ہیں۔ برہان کے والد کہتے ہیں کہ بھارت نے کنٹرول لائن کو ناقابل عبور بنانے کے لئے اتنے انتظامات کر رکھے ہیں کہ وہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ ایسے میں دہشت گردوںکی در اندازی کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہے تو پھر بھارتی فوج کیا کر رہی ہے؟ برہان وانی 14 ستمبر 1995کوضلع پلوامہ کے علاقہ ترال میں پیدا ہوا۔ اس کے والد وہاں ہائرسیکنڈری اسکول کے پرنسپل ہیں۔ بہن گریجویٹ ہیں اور اپنے علاقے میں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی ہیں۔ برہان وانی نوعمر تھا مگرذہانت میں بہت سے بڑوں سے بھی بڑاتھا۔ اس نے جہاد کشمیر کو مہمیز دینے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال متعارف کرایاجس سے پڑھے لکھے کشمیری نوجوان اس کے گروپ میں شامل ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سرفروشوں کایہ قافلہ سینکڑوں میں تبدیل ہوگیا۔ برہان اور اس کے ساتھی راشٹریہ رائفلر کی وردیاں پہن کرٹکڑوں کی صورت میں جنگلوں، وادیوں، پہاڑوں اور ندیوں کے کنارے بے فکرچلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور ٹریننگ کرتے نظر آتے۔ ان کی یہ تصاویر سوشل میڈیاپراپ لوڈ کر دی جاتیں جس سے ایسا لگتاجیسے مجاہدین بلاروک ٹوک ہرطرف پھیلے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیاکے اس استعمال نے بھارتی فوج کی نیندیں حرام کردیں اور وہ دہشت گردوں کی تلاش میں رات دن ایک کرنے لگی۔ بھارت سرکار نے برہان کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لئے دس لاکھ روپے کا انعام رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ انعام کے لالچ میں کسی نے مخبری کر دی اور بھارتی فوجیوں نے اسے ساتھیوں سمیت شہید کر دیا۔ اس 21سالہ نوجوان نے اپنی جان دے کر پوری دنیامیں کشمیرکاز کو نئے سرے سے زندہ کر دیاہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں تین ماہ سے زائد عرصہ سے جاری احتجاجی مظاہروں،ریلیوں اور ہڑتالوں میں اب تک 110سے زائد کشمیری شہید، سات سونابینا اور ہزاروں شدید زخمی ہوچکے ہیں۔ تحریک آزادی کی ساری سیاسی قیادت خواتین رہنمائوں سمیت جیلوں میں ہے۔ اخبارات پرپابندی ہے۔ فوج دس دس بار بارہ سال کے لڑکوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے اورتشدد کانشانہ بناتی ہے۔ وادی کے چار اضلاع شوپیاں، اسلام آباد، پلوامہ اور کو لگام مکمل طور پر بھارتی فوج کے حوالے کردیئے گئے ہیں۔ سری نگر سمیت ان علاقوں میں مسلسل کرفیو نافذ ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیااور ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے تاجروں کے ریاست سے باہرجانے والا اربوں روپے کا فروٹ روک دیا ہے۔ جس سے بھارتی پنجاب اور دوسری علاقوں میں پھلوں کی قیمتوں میں30فیصد اضافہ ہو گیاہے۔ برہان وانی دور دراز علاقوں میں اتنا مقبول ہوگیاتھاکہ کشمیری مائیں اس کی شہادت پر اب تک روتی ہیں۔ اور نوجوان موقع ملتے ہی مجاہدین سے جاملتے ہیں۔ بھارتی فوج اس کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لئے جوغیرانسانی ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے اس نے کشمیریوں کے لئے مشکلات میں اضافہ لیکن آزادی کی منزل کو اور قریب کردیاہے۔



.
تازہ ترین