• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلی دو صدیوں میں برصغیر میں جنم لینے والی نامور، قدآور، اور عہد ساز شخصیات کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے اگر پیر الہٰی بخش مرحوم کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ علم تاریخ سے ناواقفیت کی دلیل ہوگا۔ تقسیمِ پاک و ہند سے فوری پیشتر کے عشرے میں سندھ کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے انتہائی معتمد رفیق کار ہونے کا اعزاز انہیں حاصل ہوا۔اہالیان کراچی ان کے نام سے موسوم پیر الہٰی بخش کالونی کے حوالے سے بھی انہیں ہر دم یاد رکھتے ہیں۔ انہیں ہم سے جدا ہوئے 34 برس گزرچکے ہیں۔
پیر الہٰی بخش مرحوم 1890ء میں موجودہ ضلع دادو کی تحصیل بھان سعید آباد میں واقع پیر جو گوٹھ میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جس کو دینی اور روحانی حوالے سے انتہائی معتبر اور اعلیٰ شہرت حاصل تھی۔ خیرپورمیرس سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے ۔ وہ اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جنہوںنے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ حالات نے اُنہیں مولانا محمد علی جوہر کی زیر قیادت چلنے والی خلافت تحریک سے بہت متاثر کیا۔ خلافت تحریک کے نشے میں سرشار اور مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کے جذبے سے لبریز پیر الٰہی بخش نے اپنی تعلیم ترک کردی اور لاڑکانہ آگئے جہاں انہوںنے مقامی طور پر تحریکِ خلافت کی قیادت سنبھال لی۔ بدقسمتی سے یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی حالات نے کروٹ لی اور اُس وقت کے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کے صدر مرحوم سر شاہنواز بھٹو نے پیر صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ واپس علی گڑھ جائیں اور اپنی منقطع تعلیم کا سلسلہ از سر نو جوڑیں اور اُس کی تکمیل کریں ۔ انہوںنے اس دوسرے دور میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی اور بعد ازاں وہاں سے ایل۔ ایل۔ بی کیا۔
1937ء میں بمبئی ریزیڈنسی سے الگ کرکے ایک خودمختار اور علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ کرتا تو قرارداد پاکستان میں اُسے ایک مسلم اکثریتی صوبے کا درجہ نہ دیا جاسکتا۔ اس پورے تناظر میں، 1937ء میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی ایک بڑی خدمت اورعظیم کارنامہ تھا۔ اس عظیم کارنامے کے پیچھے پیر الہٰی بخش مرحوم کی شخصیت کارفرماتھی۔ انہیں اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی یہ بات پریشان کیا کرتی تھی کہ لاڑکانہ میں پڑھنے والے طالب علم کو میٹرک کا امتحان دینے کے لئے بمبئی جانا پڑتا تھا سندھ کو اُس کی ایک جداگانہ حیثیت کی تحریک نہ صرف کام کررہی تھی بلکہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور سائمن کمیشن تک یہ بات جا پہنچی تھی لیکن گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا دینا باقی تھا پیر الہی بخش نے سندھ یونائیٹذفرنٹ کی بنیاد ڈالی اور تاجِ برطانیہ کو مجبوراً سندھ کو 1937ء میں بمبئی سے الگ کرکے ایک علیحدہ اور آزاد صوبے کی حیثیت دینا پڑی۔
اب پیر الٰہی بخش ایک سیاست دان کے روپ میں جلوہ گر ہو چکے تھے ساتھ ساتھ ایک زیرک قانون داں کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے ۔ 1937ء میں سندھ کے علیحدہ صوبے کے قیام کے بعد جب سندھ کی پہلی قانون سازاسمبلی کے الیکشن ہوئے تو پیر الٰہی بخش نے سندھ کی پہلی قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت منتخب ہونے والی سندھ کی پہلی قانون ساز اسمبلی کا دورانیہ تقریباً 9 سال رہا۔1937ء میں منتخب ہونے والی یہ اسمبلی 1945ء کے اواخر تک کام کرتی رہی ۔ 60 ارکان پر مشتمل اس اسمبلی میں 33نشستیں مسلمانوں کے لئےمخصوص تھیں۔
6 مارچ 1941ء نئی کابینہ جو دوسری مرتبہ خان بہادر اللہ بخش سومرو کی سربراہی میں سندھ کے اقتدار پر فائز ہوئی اس میں پیر الہٰی بخش مرحوم بھی شامل تھے اور اس مرتبہ انہیں بیک وقت تعلیم، صنعت، محنت، آبکاری و جنگلات اور دیہی ترقیات کے اہم قلمدان سونپے گئے۔
پیر الہٰی بخش مرحوم شروع ہی سے قانون سازی کے عمل میں سرگرمی سے مصروف کار رہے اور اس تمام عرصے میں انہوں نے منشیات، تمباکو، آبکاری اور کاٹن جننگ جیسے اہم امور پر مناسب قانون سازی میں ایک بہترین پارلیمنٹرین کا کردار ادا کیا۔ تعلیم کے شعبہ کی طرف انہیں خصوصی شغف حاصل تھا جس کے نتیجے میں اولاًپورے سندھ میں پرائمری تعلیم کا حصول لازمی قرار دینے کے غرض سے 1941ء میں پرائمری ایجوکیشن بل ان کی مساعی سے پیش کیا گیا جسے اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا ۔ 1937ء میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے باوجود میٹرک سندھی طلبہ کو امتحان دینے کے لئے ممبئی جانا پڑتا تھا یہ وہ موقع تھا۔ ہم خیال دوستوں سے صلاح مشوروں کے بعد بالآخر انہوں نے سندھ اسمبلی کے 22ویں اجلاس منعقدہ 12مارچ 1945ء میں اپنا معرکتہ الاراآیونیورسٹی بل 1945ء پیش کیا جسے پیر الہٰی بخش مرحوم صرف 2ووٹوں کی سادہ اکثریت سے منظور کروانے میں کامیاب ہوگئے اور اس طرح سندھ کی پہلی یونیورسٹی یعنی سندھ یونیورسٹی کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔
پیر صاحب نےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پروفیسر اے بی اے حلیم کو سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پیر الہٰی بخش مرحوم کی اس کوشش کو بھرپور انداز میں سراہا ، سندھ اسمبلی کو پاکستان کے قیام کے حق میں ایک باقاعدہ قرارداد منظور کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا قیام پاکستان کے بعد جب قائد اعظم اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو یہ پیر الہٰی بخش مرحوم تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ پیر الہٰی بخش کالونی میںواقع جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے اس میں محمد علی جناح کے لئے قائد اعظم کا لقب استعمال کیا گیا
قیام پاکستان کے بعد پیر الہٰی بخش مرحوم سندھ کے دوسرے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائزہوئے جس کی میعادِ عہدہ صرف ایک سال رہی جو 3مئی 1948ء سے لے کر 4فروری 1949ء پر ختم ہوگئی۔ ان کی تقرری کی سب سے اہم اور خاص بات یہ تھی جس کو خود پیر الہٰی بخش مرحوم اپنے لئے ایک بڑااعزاز قرار دیتے تھے کہ اُن کی بطور وزیراعلیٰ تقرری براہ راست قائد اعظم کی جانب سے نامزدگی پر عمل میں آئی تھی۔انہوں نے کراچی میںمتاثرینِ قیامِ پاکستان کی آبادکاری کے لئے پیر الہٰی بخش کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی قائم کی۔ اسی زمانے میں ہندوئوں کی متروکہ املاک کو ہندستان سے آنے والے مسلمانوں کو منتقل کئے جانے کی کوششوں میں قانونی پیچیدگیوں اور رخنہ اندازیوں سے کام لیا گیا جس کو پیر الہٰی بخش مرحوم نے اپنی ذاتی کوششوں سے سہل بنایا اور ہجرت کرکے آنے والوں کی آبادکاری کو ذاتی خدمت سمجھا
ایک قدیمی پاکستانی یعنی دھرتی کا سپوت Son of the soil ہونے کے ناطے انہوں نے نووارد پاکستانیوں کو حتی المقدوروہی حصہ دلوایا جو مقامی پاکستانیوں کو حاصل تھا۔ یہ 1948ء ہی کی بات ہے کہ پیر الہٰی بخش مرحوم کے اس بے مثال رویے کو سراہتے ہوئے مشہور شاعر راغب مراد آبادی نے جو خراج تحسین پیش کیا اب مرحوم کے لئے وہی ہمارا خراج عقیدت ہے۔
پیر الٰہی بخش نے راغب، فکر و نظر سے کام لیا
قوم کی دل سے خدمت کی اور قوم نے اُن کا نام لیا



.
تازہ ترین