• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان اپنی ذات کے عشق میں بہت بری طرح گرفتار ہو چکے ہیں، ان کی خودپرستی سے مجھے یقین ہے کہ اپنی پیدائش کے موقع پر انہوں نے اپنے والدین کو مبارک باد کا میسج بھیجا ہوگا۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ انہوں نے آئینہ دیکھنا ہی ترک کردیا ہوگا کہ آئینہ اس دھرتی کے سب سے عظیم انسان کی شبیہ برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے تڑخ تڑخ جاتا ہوگا۔ مجھے اس امر کا بھی اندیشہ ہے کہ نظر بد سے بچنے کےلئے وہ روزانہ کالے بکروں کا صدقہ دیتے ہوں گے۔ وہ جب چلتے ہوں گے تو پاک دھرتی کو ٹھوکریں مارتے ہوں گے جو اتنی قدر ناشناس ہے کہ انہیں وہ مقام نہیں دلا سکی جو مقام انہوںنے اپنے لئے خود متعین کر رکھا ہے۔ وہ یہ سوچ سوچ کر کڑھتے ہوں گے کہ اللہ نے انہیں کئی جاہلوں کے درمیان ’’نازل‘‘ کیا ہے جو ان کے جلسوں میں موسیقی سے دل بہلانےآتے ہیں اور واپس جا کر ووٹ کسی اور جماعت کو ڈال دیتے ہیں۔ انہیں اس امر پر تو یقیناً شدید غصہ آتا ہوگا کہ وہ مخالفین پر جو الزام لگاتے ہیں، انصاف دلانے والے ادارے ان سے ان الزامات کا ثبوت کیوں مانگتے ہیں، گویا انہیں اس عہد کی عظیم ترین شخص کی باتوں میں حقیقت نظر نہیں آتی، یہ ادارے سچ اور جھوٹ کو پرکھنے کے لئے ایک پروسیس سے گزرنا کیوں ضروری سمجھتے ہیں، ان میں اتنی کریڈیبلٹی کیوں نہیں ہے کہ جو بات ان کے منہ سے نکلے، انصاف دینے والے ادارے اسی وقت ان کے الزامات کو حق قرار دے ڈالیں اور اگلے دن ان کے مخالفین کو انتخابات کے عمل سے الگ کر کے انہیں وزارت عظمیٰ کی مسند پر بٹھانے کے احکامات جاری کریں؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا، آخر ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
عمران خان کی یہ سوچیں اور اس حوالے سے ان کی دن بدن بڑھتی ہوئی فرسٹریشن اپنی جگہ، مگر پاکستانی عوام کی سوچیں ان سے مختلف ہیں، بلکہ اپنے ان رویوں کی وجہ سے عمران خان کے ’’مفتوحہ علاقے‘‘ بھی ان کے ہاتھ سے نکلتے چلے جارہے ہیں، جس کا ایک ثبوت حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج بھی ہیں۔ عمران خان کے ایک ’’مداح‘‘ ابرار ندیم کا خیال ہے کہ خان صاحب کو اگر سمجھایا جائے کہ آپ اقتدار کے لئے زیادہ پھرتیاں نہ دکھائیں، تو شاید وہ سمجھ جائیں۔ انہوں نے میرے نام ایک خط لکھا ہے وہ بلاتبصرہ پیش خدمت ہے۔
محترم عطاءالحق قاسمی صاحب ایک دن پہلے سوشل میڈیا پر عمران خان صاحب سے ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر بیٹھا ہوں جس کے بعد ان کے گالی بریگیڈ کی طرف سے اب تک مسلسل گالیوں کی زد میں ہوں ۔ گالیاں سن کر غصہ تو یقیناً مجھے بہت ہے لیکن ایک اطمینان بھی ہے کہ اب میں بھی اس قبیلے کا ایک فرد ہوں جو سچ لکھنے کی پاداش میں انقلابیوں کی گالیوں کے حق دار ٹھہرتے ہیں ۔ آپ تو اس قبیلے کا فخر ہیں کہ جن کو پڑھ کے اور سن کے ہمارے جیسے کمزور اور ناتواں لوگوں میں بھی حق اور سچ بات کہنے کا جو حوصلہ پیدا ہوتا ہے ۔ میری خواہش ہے کہ آپ میری اس جسارت کو ’’روزن دیوار ‘‘ میں جگہ دیں تاکہ میرا یہ سوال آپ کی وساطت سے ’’بادشاہ سلامت ‘‘ عمران خان صاحب تک پہنچ جائے اور وہ یا ان کے حواری آئندہ کسی جلسے میں یا کسی ٹاک شو میں میرے اس سوال کا جواب دیں اگر ان کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ۔
خان صاحب اللہ نہ کرے آپ لوگوں کےبچوں کی زندگیاں دائو پر لگا کر 30اکتوبر کو زورزبردستی سے اسلام آباد کو بند کرنے کے اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوں ۔ اس لئے کہ خدانخواستہ یہ روایت اگر چل نکلی تو پھر ملک اور آئین کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ آپ کو اپنی طاقت اور قوت پر مان کرنے کا پورا حق ہے لیکن محض اپنی انا کی تسکین اور وزیر اعظم بننے کی خواہش کی تکمیل کے لئے اس طاقت کے ناجائز اور بے جا استعمال سے ملک سلامتی اور اپنے ماننے اور نہ ماننے والوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا آپ کو ہرگز کوئی حق نہیں ہے ۔
جہاں تک میری ناقص معلومات کا تعلق ہے آپ کیمبرج یونیورسٹی کے پڑھے ہیں مجھے حیرت ہے کہ اس کے باوجود آپ کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ یہ پتھر کا دور نہیں ہے جب لوگ طاقت کے زور لشکر کشی کرکے مختلف علاقے فتح کر لیا کرتے تھے اور اس کے بعد کوئی دوسرا طاقتور گروہ مزید طاقت کے بل بوتے پر پہلے گروہ کو مار بھگاتا تھا اس طرح یہ سلسلہ برس ہا برس اور نسل در نسل لوگوں کو ایک لا متناہی تباہی اور بربادی سے دوچار کئے رکھتا تھا ۔ آپ جس مزاج کے حامل ہیں یقیناً وہ دور آپ کے لئے مناسب ترین دور تھا ۔بھلے آپ کے اقتدار کے لئے ہزاروں، لاکھوں انسانوں کی جانیں جاتیں مگر کسی سازش یا مہم جوئی کے نتیجے میں قسمت کی یاوری سے ہو سکتا تھا کچھ روز کے لئے ہی سہی کوئی چھوٹی موٹی بادشاہت آپ کے ہاتھ بھی آ جاتی جس سے آپ کی بے چین روح کو تسکین مل جاتی مگر آپ کی بدقسمتی اور ہماری خوشی قسمتی سے آج وہ جہالت اور بربریت کا دور نہیں ہے ۔ لوگوں نے لاکھوں کروڑوں جانیں اور اپنا قیمتی مال و متاع لٹا کر ایک لمبے عرصے کے بعد بہت کچھ سیکھ اور سمجھ لیا ہے ۔ آپس میں مل بیٹھ کے بڑی سوچ بچار کے بعد زندگی گزارنے کے کچھ اصول اور ضابطے بنا لئے ہیں تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں کمزور اور طاقتور دونوں کو اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہو ۔ ایک دستور کے تحت لوگوں کی اجتماعی رائے کو طاقت بنا دیا گیا ہے تاکہ کوئی مہم جو محض طاقت کے بل بوتے پر اپنے شوق پورے کرنے کے لئے لوگوں کے کاروبار اور ان کی زندگیوں سے نہ کھیل سکے ۔
خان صاحب !وطن عزیز جس میں ہم رہتے ہیں اس میں حاکمیت کا اختیار عوام کو دیا گیا ہے جس کی تفصیل دستور میں موجود ہے کہ کس طریقہ کار کے تحت عوام اپنے نمائندوں کا چنائو کریں گے اور اپنے چنائو کے بعد یا پہلے کوئی نمائندہ اگر کسی جرم میں ملوث پایا جائے گا تو اس کے خلاف کارروائی کے لئے بھی دستور نے ایک طریقہ وضع کر دیا ہے کہ کون سے ادارے اور کس قانون کے تحت ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی محض الزام لگانے سے کوئی مجرم نہیں ٹھہر سکتا خان صاحب آپ کو شاید پتہ نہ ہو کہ یہ اصول یہ ضابطے جسے آئین یا دستور کہا جاتا ہے کس مشکل سے بنتے ہیں خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں مختلف رنگ، نسل اور زبان کے لوگ بستے ہیں مختلف خیال اور مزاج کے لوگوں کو کسی ایک نکتے پر متفق کرنا اور پھر اس کی پاسداری کے لئے آمادہ کرنا آسان کام نہیں ہے یہ عام سی بات ہے جسے کوئی بھی ذی شعور سمجھ سکتا ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ بندہ خود غرضی اورہٹ دھرمی کے خول میں بند نہ ہو مجھے آخر میں آپ سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ کو واقعی ان بنیادی باتوں کا نہیں پتہ یا وزارت عظمیٰ کا بھوت آپ کے سر پر سوار ہے اور اس کے لئے آپ ملک و قوم کو دائو پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں ؟


.
تازہ ترین