• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ سال بڑا منحوس ادب کے حوالے سے رہا۔ آغاز انتظار حسین کی رحلت سے ہوا، ابھی تین مہینے باقی ہیں اور اب پرتو روہیلہ خاموشی سے رخصت ہوئے۔ گزشتہ دس سالوں سے انہیں جنون سوار تھا کہ غالب کے خطوط کا ترجمہ اردو میں کیا جائے۔ فارسی انہوں نے کورس میں نہیں پڑھی تھی، وہ تو سول سرونٹ تھے۔ انکم ٹیکس کے محکمے میں سینئر پوزیشن پر رہے، اردو غزل، نظم اور گیت لکھنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ اس کے اسلوب میں کلاسیکیت رچی ہوئی تھی۔ اسی کلاسیکیت نے ریٹائرمنٹ کے بعد غالب کی جانب انہیں رجوع کروایا۔ یہ خطوط اس زمانے کے ہیں، جب غالب شاعری اور تحریر دونوں میں مشکل پسند تھے۔ پرتو روہیلہ نے اس بھاری پتھر کو اٹھایا اور ترجمہ کرنے کی ہمت کی۔ گرچہ ان سے پہلے مالک رام، خلیق انجم وزیرالحسن عابدی نے غالب کے چیدہ چیدہ خطوط کے تراجم اور تذکرے کئے تھے۔ پرتو روہیلہ نے اول تو تلاش کرکے، جس حدتک ممکن ہوا خطوط جمع کئے اور پھر ان کا ترجمہ کیا۔ غالب کی آدھی سے زیادہ شاعری فارسی میں ہے مگراس کو ہاتھ لگانا اور بھی مشکل تھا۔ فتح محمد ملک کی تحقیق بتاتی ہے کہ ایک صاحب علم عبدالعلیم صدیقی، انڈیا سے ہجرت کرکے آئے تو میرپور میں قیام کیا اور غالب کی فارسی شاعری کا وزن میں ترجمہ کیا۔ معلوم نہیں وہ حیات ہیں کہ نہیں بہرحال کسی اور صاحب علم نے اردو میں ترجمہ نہیں کیا ہے۔
پرتو روہیلہ کی محنت کا صلہ یہ تھا کہ انڈیا اور پاکستان میں ان کے کام کو تحسین کی نظر سے دیکھا گیا۔ پرتو روہیلہ بہت دوست نواز اور محفل آرا شخص نہیں تھے، کم لوگوں سے ملتے تھے، زیادہ محبت کتابوں اور کتاب دوست لوگوں سے تھی۔ کم گو تھے، اس لئے ان کی بیماری کا احوال بھی لوگوں کو پتہ نہیں چلا۔ کینسر ہے بھی ایسی نامراد بیماری کہ بندے کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو تو زندگی کے آخری دنوں میں ہی معلوم ہوتا ہے کہ کینسر تھا۔ مثلاً ڈاکٹر جاوید اقبال کو صرف پندرہ دن پہلے معلوم ہوا مرزا یٰسین کو ڈیڑھ سال پہلے ڈاکٹروں نے بتادیا تھا۔ خالد حسن کو بھی 15 دن پہلے اسپتال میں داخل ہو کر ہی پتہ چلا کہ کینسر تھا۔ احمد فراز کو کینسر نہیں تھا مگر اس کے گردے فیل ہوگئے تھے۔ یہی مرض جمال احسانی اور حبیب جالب کو بھی تھا۔
پرتو روہیلہ کو عبدالعزیز خالد کی طرح ترجمہ کرنے کا جنون تھا۔ عبدالعزیز خالد نے تو قرآن شریف کا شاعری میں ترجمہ کیا تھا۔ اس میں کئی سال لگے مگر صبح سے شام تک، ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اسی کام میں لگے رہے۔ دیکھا جائے تو ڈاکٹر انور سدید نے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی بہت کام کیا۔
پرتو روہیلہ! تم جب کبھی عراق، کربلا اور شام میں گولہ باری، ننھے بچوں کی شہادت اور عورتوں کو روتے ہوئے دیکھتے تو اس غم میں دوسروں کو شریک کرنے کے لئے کبھی اختر وقار عظیم کے پاس، کبھی عرفان بھائی کے پاس اور کبھی میرے دفتر آجاتے۔ مسلمانوں کی بے بصری اور اتحاد نہ ہونے پر بھرائی ہوئی آواز میں گفتگو کرتے۔ اچھا ہوا پرتو روہیلہ! تم کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں گولیاں لگتے ہوئے دیکھ کر روتے ہوئے اور کینسر کی تکلیف کو آنکھیں بند کرکے سہتے ہوئے دنیا سے چلے گئے۔ شکر ہے تم نے روز یہ سننے کی اذیت نہیں سہی کہ آج یہاں گولہ باری ہورہی ہے اور آج وہاں۔ تم سے وہ مکروہ الفاظ بھی نہ برداشت ہوتے جو ٹیلیوژن پر خاص طور پر انڈیا کی جانب سے لغویات پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن جو ویمن صحافی انڈیا سے بولتی ہیں وہ گفتگو بھی سلیقے سے کرتی ہیں اور دونوں ملکوں میں امن کے فروغ کی بات کرتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ روز جو صبح چار بجے سے چھ بجے تک گولہ باری کرتے ہیں، ان کی آنکھ جلد کھل جاتی ہے، وہ مصروفیت ڈھونڈ لیتے ہیں، یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ گولے خالی جگہ پر پڑیں، بکریاں تک نہ مریں۔ شاید یہ ردعمل ہے شہروں کے اندر ہونے والی ظالمانہ حرکتوں کا۔ ہندوستان کے ادیبوں کو بھی امن کی آواز میں آواز ملانی چاہئے۔ انڈیا سے اگر مہیش بھٹ، اوم پوری، سلمان خان بول رہے ہیں تو ہمارے دانشور اور فنکار کیوں چپ ہیں۔ ایک دن مودی صاحب کہتے ہیں ہمیں مل کر غربت اور جہالت کو ختم کرنا چاہئےدوسرے دن دریائوں کا پانی بند کرنے کی بات کرتے ہیں۔ آپ امریکہ سے محبت کرکے دیکھ لیں، ہم تو اس محبت کی تکلیفیں 15 برس سے بھگت رہے ہیں۔ یہ وہی امریکہ ہے جو پہلے عراق اور لیبیا کو تباہ کرتا ہے اور دونوں ملکوں کو کھنڈر بنانے کے بعد کہتا ہے غلطی ہوگئی۔ افغانستان میں اس وقت بھی خوف اتنا ہے کہ امن معاہدے پر دستخط، بالمشافہ نہیں بلکہ اسکائپ کے ذریعے کئےگئے ہیں۔ پرتو روہیلہ ! تمہاری کتاب پڑھ کر ان دکھوں کو کم کریں گے۔


.
تازہ ترین