• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوڈیشل کمیشن کے قیام کے چند دن بعد اسلام آباد میں طارق پیرزادہ کے گھر احباب جمع تھے۔ جوڈیشل کمیشن کے متوقع فیصلے پر بات ہورہی تھی۔ پیرزادہ کا خیال تھا’’کمیشن چند خامیوں کی نشاندہی کرے گا، انہیں دور کرنے کے لئے تجاویز دے گا، فریقین کو مبہم فیصلے سے مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے گی، ہر سرکاری ملازم کی نفسیات کے مطابق حالات برقرار رکھے جائیں گے۔ دونوں فریقوں کو اپنے اپنے حق میں دلائل فراہم رہیں گے‘‘۔ اس خیال پر حاضرین کا اتفاق تھا کہ چند دن بعد ایک ٹی وی میزبان نے معروف دانشور قانون دان ایس ایم ظفر صاحب کو فون پر کہا اور ان سے یہی سوال پوچھا گیا جو چند دن پہلے ہمارے زیر بحث تھا۔ حیرت انگیز طور پر ظفر صاحب کا جواب وہی تھا جس پر ہم لوگ اتفاق کرچکے تھے۔ دھاندلی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا ’’اگر چند ووٹ قابل اعتراض ہوں تو یہ انسانی غلطی ہے، اگر چند سو ہوں تو یہ بے قاعدگی اور بے ضابطگی کے زمرے میں آئے گا ،اگر یہ تعداد ہزاروں میں ہو تو یہ کھلی دھاندگی ہے‘‘۔
خوف، لالچ، شوق غالب ہو تو کوئی بھی شخص صحیح نتیجہ اخذ کرسکتا ہے ،نہ درست فیصلے تک پہنچ سکتا ہے۔ اقتدار کی کشمکش میں شکست کا خوف، دولت کے حصول کا لالچ اچھے بھلے لوگوں کو حد سے گزرنے، پستی میں اتر جانے پر آمادہ کرسکتا ہے اگر اقتدار حصول دولت کا ذریعہ بھی ہو تو شوق کی شدت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انتخابی نتائج کی کشمکش جو آج درپیش ہے یہ پہلی بار نہیں ہوئی، کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے، مگر اتنی جلدی اس کا اندازہ نہیں تھا۔
بھٹو صاحب نے77ءکے الیکشن کے لئے اسمبلی توڑ دی تو دور تک کوئی حریف نظر نہیں آتا تھا۔ وہ اپنی مدت اقتدار کو محفوظ اور طویل بنانے کے لئے بزعم خود خالی میدان میں واحد اور لازم ترجیح کے طور پر آئے تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے نام پر خم ٹھونک میدان میں اتر آئیں۔ صاحب اقتدار کے لئے یہ سب اچانک اور غیر متوقع تھا، جلدی نوبت کانٹے کے مقابلے تک آپہنچی تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اصغر خاں، نوبزادہ نصر اللہ، شیر باز مزاری، سید مودودی، نسیم ولی، مولانا نورانی، مفتی محمود، بلوچ رہنما اکٹھے ہو کر میدان میں اترے تو ہر طرف عوام کا جم غفیر تھا۔ بھٹو جو بڑے ذہین اور بہادر بنتے تھے’’چوکڑی بھول گئے‘‘ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لاڑکانہ کے محفوظ ترین انتخابی حلقے میں جماعت اسلامی کے’’جان محمد عباسی جیسے امیدوار‘‘ سے مقابلہ کرنے کی بجائے انہیں ضلعی انتظامیہ کے ذریعے اغواء کرلیا گیا، اس وقت تک انہیں غائب رکھا گیا جب تک کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی تاریخ اور وقت گزر نہیں گیا۔ بلا مقابلہ منتخب ہو کر انہوں نے خود کو قد سے چھوٹا بنالیا۔ دیکھا دیکھی یہی عمل بہت سے حلقوں میں دہرایا گیا۔ ایک موثر تعداد بلا مقابلہ جتوانے کے باوجود ان کا خوف دور ہوا نہ لالچ میں کمی آئی چنانچہ دھاندلی کا یہ سلسلہ پولنگ کے اختتام تک جاری رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ’’قومی اتحاد‘‘ نے تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ یہ بائیکاٹ اتنا موثر ثابت ہوا کہ’’دس فیصد‘‘ ووٹ بھی نہ ڈالے جاسکے۔ اب بھی بھٹو صاحب کے پاس ایک شاندار موقع تھا اگر وہ بائیکاٹ کے بعد ہونے والے مطالبے کے جواب میں نئے انتخابات کا اعلان کردیتے تو سیاسی فضا ان کے لئے ہموار ہوجاتی مگر وہ حالات کا صحیح اندازہ لگانے اور جرأت مندی سے بروقت فیصلہ کرنے میں ناکام رہے اوربدقسمتی کی نذر ہوگئے۔
30اکتوبر 2011ءعمران خان کی سیاسی جدوجہد کا نقطہ عروج تھا۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے میاں نواز شریف نے آئندہ انتخاب پر صلاح مشورے کے لئے پارٹی کا اجلاس طلب کیا۔ اس اجلاس میں عمران خان بھی زیر بحث آئے تو اکثر شرکاءنے خان کا مذاق اڑایا اور اسے کوئی اہمیت نہ دینے کا مشورہ دیا مگر ایک خاتون رکن اسمبلی نے حقیقت پسندی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے ساتھ کسی بھی قیمت پر کوئی اتحاد یا سمجھوتہ کیا جائے۔ باوجود یکہ میں آپ کی ممبر اسمبلی ہوں مگر میرے بچے کہتے ہیں آپ اپنی مرضی کریں لیکن ہم اپنا ووٹ عمران خاں کو دیں گے۔ میرے گھر میں یہ حال ہے تو نوبت ہر گھر میں اس حال کو پہنچ چکی ہوگی۔ فیصل آباد کے چوہدری شیر علی کے
نکل جاتی ہے سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
انہوں نے بھی خاتون کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے عمران خاں سے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ کپتان کے جلسوں میں عوام کا اژدہام تھا ایک سے بڑھ کر دوسرا جلسہ۔30اکتوبر لاہور، نومبر گھوٹکی،25دسمبر کراچی شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف میں شمولیت یہ سارے آثار ایک خوفناک طوفان کی آمد کا پتہ دیتے تھے۔ میاں صاحب ان کے اتحادیوں(جو انہیں دس سالہ اقتدار کی شراکت کے وعدے پرلائے تھے) کے لئے ڈراؤنا خواب تھا، جس طرح قومی اتحاد بھٹو کے لئے اسی طرح عمران خان مسلم لیگ نواز کے لئے ناگہانی افتاد بن گیا اگر چہ تحریک انصاف کے اندرونی انتخابات اور قومی انتخابات کے لئے امیدواروں کے چنائو میں غیر معمولی تاخیر ہوگئی تھی مگر پنجاب کے شہروں میں عمران خان کا پلہ بھاری نظر آتا تھا ، تمام تجزیہ کار اس بات پر متفق تھے اور آخری دن تک یہی کہتے رہے کہ’’تحریک انصاف کو شہروں میں برتری حاصل ہے‘‘ جوہر ٹائون لاہور کے ضمنی انتخاب میں شہری پولنگ سٹیشن پر تحریک انصاف کی غیر معمولی برتری ثابت ہوچکی تھی۔
الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشن پر ووٹرز کی قطار اور ووٹنگ کے بعد شہر بھر کی سڑکوں کے آثار تحریک انصاف کی برتری ظاہر کرتے تھے مگر نتائج امکان اور آثار کے مطابق نہیں نکلے۔
انتخابات چالاکی کی نظر نہ ہوتے تب بھی نتاثج نواز شریف کی برتری پر منتج ہوتے اور انہیں حکومت بنانے کا موقع مل جاتا اور شاید عمران خاں کا تعاون بھی اس صورت میں وہ اپوزیشن لیڈر بھی ہوتا۔
عمران خاں اسپتال میں تھے انہوں نے وہیں سے اعلان کیا کہ وہ نواز شریف کی حکومت اور انتخابات کو تسلیم کرتے ہیں مگر دھاندلی کو نہیں۔ حکومت ہمارے تجویز کردہ چار حلقوں کی نتائج کو نادرا کے ذریعے پھر سے پڑتال کروائے تاکہ انتخابات کی شفافیت کا پتہ چلایا جاسکے اگر اس میں کمزوریاں ہیں تو آئندہ کے لئے اس کے ازالے کی راہ نکالی جائے۔’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ حکمران اس مطالبے سے نظر چرانے لگے۔آصف علی زرداری جو اس وقت سربراہ ریاست بھی تھے، انہوں نے انتخابی نتائج کے غیر شفاف ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں’’آراوز‘‘ ریٹرننگ آفیسرز کا الیکشن قرار دیا ، جس طرح بھٹو صاحب کے پاس ایک موقع تھا اس سے کہیں بہتر چانس نواز شریف کے پاس تھا، اگر وہ عمران خاں سے چار حلقوں کی تفصیل حاصل کرکے ان حلقوں میں نئے سرے سے انتخابات کا اعلان کردیتے حالانکہ عمران خاں کا یہ مطالبہ نہیں تھا وہ بدعنوانی اور دھاندلی کا کھوج لگانا چاہتے تھے اور میاں نواز شریف کے یکطرفہ اعلان سے سیاسی دھارا ان کے حق میں بہہ نکلتا اور انہیں اخلاقی برتری حاصل ہوجاتی۔ انہیں مرکز اور صوبے میں اقتدار حاصل تھا وہ پھر سے انتخاب جیت سکتے تھے مگر ایسے فیصلوں کے لئے سیاست کا شعور اور پہل کاری کی جرأت درکار ہوتی ہے۔ دوسرا موقع انہیں تب میسر آیا جب جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ جمع کروائی۔ اگر وہ اپنے جیالوں کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے اور خود بھی ٹی وی پر طنز کے تیر چلانے کی بجائے عمران خاں کے پاس چلے جاتے اور انہیں آئندہ الیکشن کے لئے اصلاحات کا یقین دلاتے تو ان برے دنوں سے بچا جاسکتا تھا جوستمبر سے مارچ کے دوران حکومت کو بھگتنا پڑیں گے۔ جوڈیشل کمیشن کے چالیس نکات اور الیکشن ٹربیونل کے فیصلوں کے بعد اب کھیل عمران خاں کے ہاتھ میں ہے۔
موجودہ حکومت ا لیکشن کمیشن کے ممبران اور انتظامیہ کی موجودگی میں وہ سیدھے سبھائو ، دو یا تین حلقوں کے انتخاب میں جائے یہ غیر ممکن ہے۔ ان فیصلوں کے بعد ’’کپتان‘‘ کو اخلاقی برتری اور سیاست میں پہل کاری حاصل ہوگئی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اس کے ساتھ ہے اور موسم سازگار، چنانچہ وہ چند شہروں میں جلسے منعقد کرکے فضا تیار کرے گا اور الیکشن کمیشن کے خلاف زبردست احتجاج کے لئے روانہ ہوگا تو حکومت اور الیکشن کمیشن کے ممبران اس یلغار کا سامنا نہیں کرسکیں گے۔
پندار کے خوگر کو، ناکام بھی دیکھو گے
آغاز سے واقف ہو، انجام بھی دیکھو گے
تازہ ترین