• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کفر کے ساتھ معاشرہ زندہ اور قائم رہ سکتا ہے لیکن ایسی سوسائٹی قائم نہیں رہ سکتی جس میں ہر سُو ظلم ہو،نا انصافی ہو، حق تلفی ہو، استحصال کا دور دورہ ہو، حقدار دربدر اور غاصب کا راج وغلبہ ہو۔ قیامِ وطن سے شروع کریں تو ایک کے بعد ایک حادثہ رونما ہوتارہا اور اپنے پیچھے اُڑتی ہوئی راکھ چھوڑ جاتارہا۔ ظلم اور ناانصافی پر آمادہ معاشروں میں ترازو کے پلڑوں کو ایک دوسرے کے ہمسر منصف نے ہی لانا ہوتا ہے۔ قاضی نے میزان قائم کرنا ہوتا ہے۔ یہ عدلیہ کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ ظلم پر آمادہ غاصبوں کے طاقتور ہاتھوں کو روک دے اور مظلوم و مہقور افراد کو دادرَسی فراہم کرے۔ ترقی کے مواقع اور ریاست کے وسائل کی یکساں تقسیم کو یقینی بنائے۔ طاقت اور دولت کے منہ زور گھوڑے پر سوار اشرافیہ کو محنت کشوں، کسانوں اور ہاریوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہونے پر مجبور کردے۔ ملک کی دولت لوٹنے والے بااثر طبقات کو قانون کے شکنجے میں جکڑ دے لیکن ستم بالائے ستم کہ وقت کے قاضیوں نے بھی حکمرانوں کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی تھی۔ وطنِ عزیز کے حساس طبیعت لوگ ملک کے اِن حالات کا ذکر کرتے ہوئے شدید کرب اور ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتے تھے ۔ وہ اِس انتظار میں تھے کہ کوئی ماہر فنِ تعمیر آئے جو ناآسودگی کی مسلسل یلغارکے باعث اُن کے مرجھائے ہوئے چہروں پر بھی خوشیاں تراش دے ۔ اِسی تناظر میں ایک شخص جو تمام آلائشوں اور ہوس کی منہ زور لہروں سے آلودہ نظام کا حصہ تھا۔ کربِ زیست میں مبتلا ایک عام مڈل کلاس گھرانے کا فرد۔ معاشرے کی مروجہ روش اور جانگسل راہوں پر چلتے چلتے پاکستان کے ایک اعلیٰ ترین منصب پر جافائز ہوا۔ وہ بے آواز اور محروم طبقے سے تعلق رکھنے کے باعث مسائل سے شناسا تھا۔ حجۃ الوداع میں نبی پاک ﷺ کی جانب سے جاری کئے گئے انسانی حقوق کے چارٹر کی اہمیت کو سمجھتا تھا۔ ملکی نظام کو ایک قاعدے اور قانون کے تحت چلائے جانے پر یقین رکھتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے جب کوئی کام لینا ہوتا ہے تو اپنے عام بندوں میں سے ہی کسی کا انتخاب کرلیتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔عالمی طاقتوں سے اُدھار میں مانگے ہوئے اُس وقت کے ایک بدیسی وزیراعظم نے جب پاکستان اسٹیل ملز کو کوڑیوں کے بھائو بیچنے کی کوشش کی تو ایک جرأت مند اور نڈر لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم کی جانب سے لکھی گئی چٹھی کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کی فروخت روکنے کا حکم صادر کردیا۔ آئے روز بدعنوانی، کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا شروع کیا تو اُس وقت کی حکومت کا کھوکھلا پن نکھر کر سامنے آنے لگا جس پر اُن سے استعفیٰ طلب کر لیا گیا اور یوں مستعفی ہونے سے انکار کی جرأت نے قوم کو ایک ایسے شخص سے متعارف کروا دیا جسے آج ہر پاکستانی افتخار محمد چوہدری کے نام سے جانتا اور پہچانتا ہے۔ اُن کے فیصلوں سے یہ ثابت ہوگیا کہ اب عدالتیں موم کی ناک نہیں بنیں گی۔ اب عدالتیں امیر اور غریب کو الگ الگ آنکھ سے نہیں دیکھیں گی۔ قانون اندھا ہی رہے گا۔ چہرے دیکھ کر فیصلے نہیں کرے گا۔ یہ متحرک عدلیہ ہی کا کارنامہ تھا کہ ریاستی جبر کی علامت پولیس اور ضلعی انتظامیہ ایک انجانے خوف میں مبتلا رہنے لگے کہ کسی بھی دست درازی یاغیر قانونی عمل کی صورت میں اگر کسی شہری نے عام ڈاک کے ذریعے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو شکایت کردی تو طلبی کے ساتھ ساتھ تنزلی، برطرفی یا گرفتاری بھی عمل میں آسکتی ہے۔ توہین عدالت کے جرم میں صرف کلرک ، پٹواری یا عام شہری کو ہی سزا ملتی تھی لیکن جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت میں سزا دے کر ثابت کر دیا کہ اب ہر کسی کو قانون کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ وکلاء اور سول سوسائٹی کی فقیدالمثال تحریک کے باعث آج پاکستان ایک بدلا ہوا ملک ہے جہاں اہلِ وطن نے قانون کی حکمرانی کا جوخواب دیکھا تھا اُس کی مکمل تعبیر حاصل کرنے کیلئے منزل کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعدامورِ مملکت میں عوام کی شمولیت اور عوامی بیداری کیلئے چلائی گئی ذوالفقار علی بھٹو کی ملک گیرعوامی مہم کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر جج صاحبان کی بحالی کیلئے وکلاء کی تحریک قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے استحکام کے ساتھ ساتھ عوامی بیداری و شعوری آگاہی کیلئے سنگ میل ثابت ہوئی۔ مورخ جب بھی تبدیل ہوتے ہوئے پاکستان پر قلم اُٹھائے گا تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو تاریخ میں اُن کا جائزمقام دیئے بغیر آگے نہ بڑھ پائے گا۔
افتخار محمد چوہدری کے بعد چیف جسٹس کے منصب جلیلہ پر متمکن ہونے والے جسٹس جواد ایس خواجہ کے ابتدائی اقدامات ملک و قوم کیلئے ٹھنڈی ہوا کا ایک تازہ جھونکا ثابت ہوئے ہیں۔ یہ وہی جواد خواجہ ہیں جنہوں نے 19مارچ2007 ء کو لاہور ہائیکورٹ کے تمام جج صاحبان کو ہائیکورٹ کے ’کامن روم‘ میں چائے پرمدعو کیا ۔ اُنہیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معطلی سے پیدا ہونے والے حالات سے آگاہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ باقی جج صاحبان بھی آئین کی پاسداری کیلئے ایک متفقہ لائحہ عمل پر رضامند ہو جائیں لیکن اِیسا نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ خود مستعفی ہوجائیں۔ اس طرح ردِ عمل کے طور پر کسی بھی ہائیکورٹ سے استعفیٰ دینے والے وہ پہلے اور اکلوتے جج تھے۔
لارنس کالج گھوڑا گلی، ایچی سن کالج، ایف سی کالج، پنجاب یونیورسٹی لاء کالج اور کیلیفورنیا یونیورسٹی جیسے اداروں میں زیرِ تعلیم رہنے کے باوجود وہ خالصتاً مشرقی اوصاف و اقدار کی مالک شخصیت ہیں۔ ذاتی نمود و نمائش اور شہرت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ جسٹس کارنیلس کی عاجزی، انکساری اور قانون پسندی سے بیحد متاثر ہیں۔ شیخ سعدیؒ، رومیؒ، علامہ اقبالؒ، میاں محمد بخشؒ اور دیگر صوفی شعراء سے خصوصی لگن رکھنے والے درویش صفت جسٹس جواد خواجہ نے پاکستان کی اشرافیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کسی اعلیٰ ترین منصب پر فائز وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اُردو زبان میں حلف اُٹھایا ۔ قبل ازیں وہ اُردو زبان کے نفاذ کی بابت فیصلہ بھی صادر کرچکے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس کا پروٹوکول لینے سے انکار کردیا۔ اور کہا کہ وہ چیف جسٹس کے لئے مختص چیمبر استعمال نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس ہائوس میں منتقل نہیں ہوں گے۔ بلٹ پروف مرسیڈیز کار واپس کردی۔ چیف جسٹس کی مراعات سے بھی انکار کردیا کہ وہ صرف سپریم کورٹ جج کی حیثیت میں پہلے سے دستیاب مراعات ہی حاصل کریں گے۔ وزیر آباد کی سر زمیں بلاشبہ اپنے اس عظیم سپوت پر فخر کرسکتی ہے جو رشوت، بدعنوانی، استحصال، لوٹ مار، اقربا پروری اور ناانصافی کے شکار لوگوں کی حالتِ زار پر تڑپ اُٹھتا ہے۔انہوں نے مفادِ عامہ کے تحت مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے جیل میں قیدیوں کی حالتِ زار، وکلاء کی جانب سے پیشہ وارانہ اخلاقیات کی پابندی، میڈیا کمیشن کی تشکیل، رشوت، بدعنوانی، نااہلی و غفلت کے مقدمات میں کارپردازانِ سرکار کی سرزنش، محنت کشوں کے تحفظ، پولیس و تھانہ کلچر اورنظام عدل میں اصلاحات سمیت متعدد شعبوں کے بارے میں اہم فیصلوں کے ذریعے ملک اور قوم کی نمایاں خدمت سرانجام دی ہے۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آج چیف جسٹس کے منصب پر ایک ایسا سادہ سا شخص فائز ہے جس کی لاہور میں واقع رہائش گاہ کی بیرونی چوکھٹ پرنصب تختی پر ’’رہائش گاہ چیف جسٹس سپریم کورٹ‘‘ یا جج سپریم کورٹ کے الفاظ درج نہیں ہیں بلکہ صرف سیدھا سادہ نام ’’جواد ایس خواجہ‘‘ لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ ہم تو پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کی اُس مصنوعی اور کھوکھلی دنیا میں بسنے والے باشندے ہیں جہاں وزیر،جج، ایم این اے، کمشنر، سیکریٹری، آئی جی، چئیرمین، ڈی جی، ایم ڈی اور تحصیلدار جیسے درجنوں دوسرے عہدے منوں مٹی تلّے چلے جانے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔ متوفی کی قبر پر نام مختصر حروف میں جب کہ عہدوں کی تفصیل پورے پروٹوکول کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کے عہدے پر ان کی تعیناتی قلیل مدت کیلئے ہی سہی لیکن وہ اپنے بعد آنیوالوں کو نوید سحر دیتے جائیں گے، جس کی روشنی میں چلتے ہو پاکستان کی عدلیہ قومی اُمنگوں کے مطابق مکمل طور پر قانون کی حکمرانی کی محافظ بن کر اُبھرے گی۔ایک نئی صبح کے سنگ ایک نیا آفتاب طلوع ہوگا۔ وطن عزیر میں پروٹوکول اور وی آئی پی کلچرسے چھٹکارا ہی حقیقی تبدیلی کا آغاز ہوگا۔ عدلیہ انتظامیہ مقننہ نیز تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے سربراہان کو پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کو خیر باد کہتے ہوئے جسٹس صاحب کے نقشِ پاء پر چلنا چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی شخصیت بلا شبہ اہلِ وطن کیلئے بادِ نسیم کا تازہ جھونکا ہے۔ خدا کرے کہ ارضِ پاک میں ایسی تازہ ہوائوں کے جھونکے چلتے رہیں اور ہمیں ہر شعبے میں ایک ایسا ہی درویش صفت سربراہ میسر آتار ہے تاکہ بقول احمد ندیم قاسمیؔ:؎
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب وقت کا اوجِ کمال
کوئی ملال نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے مرے اک بھی ہموطن کیلئے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
تازہ ترین