• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق صدر آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو یاد دلایا ہے کہ انہوں نے 90کی سیاست گویا انتقامی سیاست ازسرنو شروع کر دی ہے۔آصف علی زرداری نے اور بھی کافی کچھ کہہ دیا مگر کہنے کی وجہ خود جس طرح کہی وہ بھی کمال ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین ان کے قریبی دوست ہیں ۔زرداری صاحب نے ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹرذوالفقار مرزاکی طرح ڈاکٹر عاصم کو بھی اپنے اقتدار کا حصہ بنایا۔یہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کے زیادہ قریب کون تھا اور کیوں تھا اور ایسا کیا تھا کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزاکے سپیکر بننے پر ان کی جماعت کے سربراہ مخدوم امین فہیم نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری دوستوں کے دوست ہیں۔ تاریخ کے کچھ اوراق بند ہی رہا کرتے ہیں مگر اکثر تک زمانہ رسائی حاصل کر لیا کرتا ہے90کی دہائی کی سیاست میں میا ں نواز شریف دو مرتبہ وزیراعظم بنے۔بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی بھی وہ سب کر رہی تھی جس کے باعث ان کو تاریخ میں خفت اٹھانا پڑی۔آصف زرداری جیل سے وزارت تک کا سفر بھی انہی دنوں طے کرنے کی صلاحیت کے مالک بنے۔پرویزمشرف کے اقتدار کو حاصل کرنے کا موقع پر بھی بے نظیر بھٹو بہت خوشی کا اظہار کر رہی تھیں ۔انہوں نے غلام اسحق خان کے ساتھ میا ںنواز شریف کے اختلافات سے فائدہ اٹھایا۔اگر ان کا اقتدار ان کی اپنی جماعت کے سابق سیکرٹری جنرل نے آئینی دفعات کے تحت آئینی طور پر ختم کیا تھا تو اس میں اسوقت نواز شریف شریک نہ تھے۔غالباََ کوئی اور تھا۔اور اس کسی اور کے ساتھ آصف علی زرداری کی جماعت کا بھی گہرا تعلق موجود تھا۔ لانگ مارچ بھی ایک ترتیب شدہ پروگرام تھا بے نظیر بھٹو اس وقت پلاننگ کا حصہ تھیں ۔جہاں تک مقدمات کا تعلق ہے یہ نواز شریف نے شروع نہ کئے تھے تاہم بطور سیاستدان وہ تمام مواقع سے فائدہ اٹھانے کا نہ صرف حق رکھتے تھے بلکہ انہوں نے یہ تمام فوائد اٹھائے بھی ہر دو لیڈروں میا ں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اپنی اپنی جلاوطنی کے باوجود اس با ت کی شدت کے ساتھ کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح ان کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو جائے۔ یہ کوشش بار آور بھی ثابت ہوئی اور ایک طویل جدوجہد اور غیر محسوس طور پر ملاقاتوںکے نتیجہ میں ایک معاہدہ طے پا گیا۔لندن میں ایک تقریب کے دوران اس معاہدہ پر دستخط ہوئے اور اس کو CODکا نام دیا گیا۔ ایک طرف بے نظیر بھٹو سی او ڈی پر بات چیت کو آگے بڑھا رہی تھیں تو دوسری طرف جنرل پرویز کے ساتھ ان کے بالواسطہ رابطے قائم ہو چکے تھے۔جنرل پرویز مشرف اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے بے نظیر بھٹو کے ساتھ معاملات طے کر رہے تھے تو دوسری طرف چوہدری پرویز الہیٰ وزیر اعظم بننے کیلئے اپنی جماعت کو تباہ وبرباد کرنے کی تمام تر کوشش کر رہے تھے ان کا خیال تھا کہ ان کی پنجاب میں پرفارمینس کی بنیاد پر ان کو ملک بھر سے اکثریت حاصل ہو جائے گی اور اس کیلئے وہ بے نظیر بھٹو کے مقدمات کو NROکے ذریعہ ختم کرنے پر تیار تھے۔چوہدری شجاعت حسین صورت حال کو جانتے ہوئے پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاسی معاملات طے کرنے کیلئے مشورے دے رہے تھے نہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن سکیں نہ پرویز مشرف صدر رہ سکے اور نہ ہی پرویز الٰہی کے ابتک وزیراعظم بننے کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔ باوجودیکہ انہوں نے غیر آئینی طور پر خود کو نائب وزیراعظم کہلوانا پسند کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اپنے گذشتہ دوراقتدار اور قد آور شخصیات کے نہ ہونے کی بنا پر بالعموم اور کسی بھی پروگرام،نظریہ یا وژن کے نہ ہونے کے باعث تاریخ کے اوراق میں تو موجود رہے گی مگر پاکستان کے میدان سیاست میں اب کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت نہ صرف کھو چکی ہے بلکہ ان کی موجودہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ اب اقتدار حاصل کرنے کی صلاحیت بھی حاصل نہ کر سکیں گے ۔2008سے2013 تک پیپلز پارٹی نہ صرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی بلکہ اس کی صفوں میں ایسے لوگوں کی جگہ بھی بن گئی جن کا ان کے نظریہ وجود پروگرام یا مزاج سے کوئی تعلق نہ رہا ہو۔ کاروبار کے شریک دوستوں کی موجودگی کو سیاسی ہم سفر قرار نہیں دیا جا سکتا ۔تاثر عام ہے کہ ہر کسی نے بہتی گنگا سے نہانے کا سامان کر رکھا تھا۔ ہر عہدے دار کی خواہش تھی کہ کم از کم لندن میں ایک فلیٹ تو ضرور ہو یااور ایسی دیگر وجوہات کی بنا پر پارٹی اندرونی سازشوں اور جھگڑوں کا شکار ہوئی۔ کارکن بے بس ہو کر خود کو الگ کر چکے ہیں ۔ سیاسی کارکنوں کی بے توقیری ہر جگہ ہر محفل ہر روز ہوتی ہے۔
ایک طرف سیاسی جماعتوں کی تنظیمی صلاحیتیں نہ صرف معدوم ہوچکی ہیں تو دوسری طرف حالت جنگ میں موجود ملک اندرونی اور بیرونی دبائو کا شکار ہے ۔بھارت ہمارے صبر اور استقامت کا امتحان لے رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان بھی شرائط سنا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف افواج پاکستان کو للکارنے والے آصف زرداری نے توجہ ہٹانے کیلئے سیاسی محاذ کو گرم کرنا شروع کر دیا ہے۔ کس نے کہا تھا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو وزیر قدرتی وسائل و پیٹرولیم بنایا جائے۔یہ کسی بیمار کو اسپرین دینے کی وزارت نہ تھی نہ ہی زمین حاصل کرنے کی ۔وفاقی وزیر قادر بلوچ وزیر اعلیٰ سندھ کو عاصم حسین کے بارے پوری بات بتا آئے ہیں ۔پیپلز پارٹی کو کوئی دہشت گردی میں ملوث نہیں کر سکتا مگر کیا کیا جائے کہ ایمبولینس میں اسلحہ آتا جاتا رہا ہے۔ کیا معلوم کسی AK47کو نزلہ ہوگیا ہو ۔زرداری صاحب تو زرداری ہائوس سے باہر نہیں نکل سکتے۔سیاست کیا خاک کریں گے ۔کہا ںذوالفقار علی بھٹو اروکہا ںآصف بلوچ پیپلز پارٹی کے بارے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سندھ پیپلز پارٹی اور پنجاب پیپلز پارٹی میں سخت اختلاف ہے اور آصف زرداری اپنی جماعت کو ازسرانو منظم کرنے اور سوچ میں یکسانیت پیدا کرنے کیلئے ایک نئی چال چلنا چاہتے ہیں ۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ جیالے کسی طرح خوش ہوتے ہیں یا نہیں ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ ماضی کے قصوں اور کہانیوں اور قبروں کی زیارت کے ساتھ اب عملی سیاست نہ ہوسکے گی اور ایسے حالات میں افواج پاکستان کے ساتھ مخاصمت رکھنے والوں کو بھی عوام اب پسندیدگی کی گناہ سے نہ دیکھیں گے۔ جنرل راحیل شریف کے بارےمیں زرداری صاحب کو چاہیے کسی گلی کے کونے پر کھڑے شخص سے پوچھ کر دیکھ لیں۔90کی سیاست میں بعض ذمہ دار سرکاری وردی والی شخصیات بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں اب زمانہ لد چکا ۔ اگر عاصم حسین نے غیر قانونی کام کئے ہیں تو جواب بھی دینا ہوگا مگر سیاسی شخصیات کوچاہیے کہ کاروباری شراکت داری کی بجائے ملک و قوم کی بہتری،امن ،بھلائی،استحکام کیلئے کام کریں اور کرنے دیں ۔عاصم حسین ،رحمن ملک ،عزیز بلوچ ، مظفر ٹپی۔جے اے رحیم،ڈاکٹر مبشر حسن،معراج محمد خان، خورشید حسن میر نہیں بن سکتے۔
تازہ ترین