• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوری ممالک میں سویلین بالادستی ہی قوموں کی ترقی کی ضمانت ہوتی ہے۔مہذب معاشروں میں کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہوتا ہے ،کیونکہ عدلیہ ، فوج اور بیوروکریسی بھی پارلیمنٹ سے نکلتے ہیں۔بلکہ دنیا کی مانی ہوئی جمہوریت برطانیہ میں تو یہ مقولہ مشہور ہے کہ "برطانوی پارلیمنٹ عورت کو مرد اور مرد کو عورت بنانے کے سوا سب کچھ کرسکتی ہے"۔برطانیہ ،امریکہ سمیت تمام جمہوری معاشروں میں سمجھا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ دراصل سپریم کورٹ سے بھی زیادہ مقدس ہوتی ہے۔کیونکہ اعلیٰ عدالتیں،فوج او ر بیوروکریسی سمیت جو بھی اپنے اختیارات کا استعمال کرتا ہے،دراصل وہ اختیار پارلیمنٹ کی دی گئی امانت ہوتی ہے۔اسی لئے ان معاشروںمیں اعلیٰ عدلیہ بھی پارلیمنٹ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ دراصل پارلیمنٹ ہی ملک کے تمام اداروںمیں اختیارات بانٹتی ہے اور اس میں اعتدال کا خیال رکھتی ہے۔ملک کے چیف ایگزیکٹو کو چونکہ پارلیمنٹ ہی قائد ایوان کا درجہ دیتی ہے ،اس لئے چیف ایگزیکٹو کو تمام اداروںکے سربراہان پر برتری حاصل ہوتی ہے۔دوسری جنگ عظیم میں جب برطانیہ میں چرچل برسر اقتدار تھے اور امریکہ میں روزویلٹ کی حکومت تھی۔ایک ایسی صورتحال جب تمام اقوام عالم ایک دوسرے کے خلا ف برسرپیکار تھیں۔ایٹم بم تک برسائے گئے ۔مگر جب پارلیمنٹ کی بالادستی اور نظام کے تسلسل کے لئے عام انتخابات کا معاملہ آیا تو پوری دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا جب برطانیہ اور امریکہ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران باقاعدہ انتخابات کرائے گئے ۔یہ دراصل ان معاشروں میں نظام کے تسلسل کی اہمیت کو واضح کرتا ہے اور ایک ہم ہیںجو کسی بھی ملک سے معمولی سی کشیدگی پر مدت ملازمت میں توسیع اور نظام کو لپیٹنے کی دلیلیں دینا شروع کردیتے ہیں۔ بھارت سمیت کسی بھی ملک سے کشیدگی کو حب الوطنی سے جوڑنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔
آج پاکستان میں جمہوریت کو آئے تقریبا آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ہمیشہ جمہوریت کی مضبوطی اور ایگزیکٹو کی بالادستی پر لکھا ہے۔مگر جب ایگزیکٹویا اس کے ادارے کوئی غلطی کریں تو نشاندہی کرنا اشد ضروری ہوجاتا ہے۔آج ایک ایسا معاملہ سامنے آیا ہے جس نے سویلین حکومت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔آج سے کچھ ماہ قبل عسکری ترجمان کے ٹوئٹس کی خبروں کی گونج ہر جگہ سنائی دے رہی تھی تو سویلین حکومت کی طرف سے ہائی لیول پر کہا گیا تھا کہ جب وزیراعظم ہاؤس کے اپنے پریس سیکرٹری و دیگر میڈیا ٹیم موجود ہے تو آپکی طرف سے ہر میٹنگ کی خبر فوری طور پر جاری کرنا مناسب نہیں ہے۔کچھ اخبارات نے اس معاملے پر یہاں تک لکھا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس نے پبلک ریلیشنز سے منسلک اہم افسر کو میٹنگ میں آنے سے روک بھی دیا تھا۔جب ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی کچھ ٹوئٹس پر میڈیا کے حلقے برملا تنقید کرتے رہے ہیں تو آج سویلین حکومت کے اعمال کا بھی بلا خوف و خطر جائزہ لینا چاہئے۔ایک انگریزی روزنامے میں چھپنے والی معلومات محض ایک خبر ہے۔گزشتہ چند مہینوں میں فوج اور سویلین حکومت کے حوالے سے اس سے بھی زیادہ سخت لکھا گیا ہے۔مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک ایسی میٹنگ جس میں قومی سلامتی سے متعلق حساس معاملات پر گفتگوکی جارہی ہو۔جس کے شرکاء میں وزیراعظم پاکستان،آرمی چیف،وزیراعلیٰ پنجاب،وزیر داخلہ ،وزیردفاع ،ڈی جی آئی ایس آئی سمیت دو ،تین سول افسران شریک ہوں۔اس میں ہونے والی گفتگو کا سیاق و سبا ق سے ہٹ کر باہر آجانا قابل قبول نہیں ہے۔اس طرح کا معاملہ تو دراصل قومی سلامتی کے رکھوالوں پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے جتنا لیا جارہا ہے۔خبر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف چھپی ۔وزیراعلیٰ پنجاب خود تو اپنے خلاف خبر چھپوانے سے رہے اور جہاں تک میں انہیں جانتا ہوں۔شہباز شریف اس انداز میں اور اس طریقے سے کبھی بھی بات نہیں کرتے۔سارے معاملے کو خبر میں سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کرنا مناسب نہیں تھا۔وزیراعظم اور آرمی چیف پر انگلی اٹھانا مناسب نہیں۔وزیر دفاع خواجہ آصف کو جتنا میں جانتا ہوں،ان کی ایسی طبعیت ہی نہیں ہے۔باقی رہ گئے چوہدری نثار علی خان صاحب۔وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے نظریات سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر چوہدری نثار کی ساکھ پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ان کی وزارت کے بارے میں تو مشہور ہے کہ کبھی کوئی حساس معلومات باہر نہیں آتیں۔ چوہدری نثا ر سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر چوہدری نثار کے حوالے سے نیند میں بھی ایسا گمان نہیں کیا جاسکتا۔ان سارے لوگوں کے بعد رہ جاتے ہیں تو ڈی ایم جی (پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس)کے کچھ افسران۔سوشل میڈیا اور مسلم لیگ ن کے سینئر حلقے اطلاعات سے منسلک ڈی ایم جی کے کسی سول سرونٹ کو ہدف بنارہے ہیں مگر کسی پر شک کرنا مناسب نہیں ہے۔ویسے تو وزیراعظم صاحب کے کچھ سول افسران کو ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر صاحب نے بھی اسمبلی اجلاس میں تقریر کے دوران تنقید کا نشانہ بنایا ہے" تحقیقات کریں کہ کچھ سول افسران کے اسلام آباد اور راولپنڈی میں پلازے بن رہے ہیں"۔مجھے تو ان کے نام نہیں پتہ مگر جناب وزیراعظم یہ بات بلوچستان کے دور افتادہ علاقے کے کسی شہری نے نہیں کی بلکہ آپ کے اپنے داماد نے مقدس ترین ادارے پارلیمنٹ میں تمام اراکین کے سامنے برملا تقریر میں کی ہے۔کیپٹن صفدر صاحب کو یا تو اس معاملے کے ثبوت پیش کرنے چاہئیں یا پھر کسی پر الزام لگانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔مگر دونوں صورتوں میں معاملہ تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔وزیراعظم صاحب ! یا تو اپنے گھر والوں سے ثبوت لیں یا پھر اپنے قریبی بیوروکریٹس سے۔باقی بات رہی خبر لیک ہونے کی تو وزیراعظم اور ان کے سیکرٹری فواد حسن فواد کو اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سے افسران ہیں جو قومی سلامتی سے متعلق حساس معاملے کی معلومات باہر لیک کردیتے ہیں اور پوری ریاست تین دن میں بھی انہیں تلاش نہیں کرپاتی۔جبکہ آج چوہدری نثار علی خان صاحب پر بھی ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میرٹ اور اصول پسندی کی اولین مثال قائم کرتے ہوئے تحقیقاتی رپورٹ کو اسی طرح سے منظر عام پر لائیں جیسے ہمیشہ پنجاب ہاؤس میں دیگر معاملات پر پریس کانفرنس کرتے ہیں۔شاید اس معاملے میں ان کا کوئی بیوروکریٹ ہی ذمہ دار ٹھہرے مگر چوہدری صاحب! انصاف ہمیشہ گھر سے شروع ہوتا ہے۔



.
تازہ ترین