• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سول اور ملٹری قیادت کا ایک غیر معمولی اجلاس 10اکتوبر کو وزیراعظم ہاؤس میں ہوا، جس میں محمد نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر نے شرکت کی۔ ملاقات میں سلامتی امور کے مشیر شریک نہیں ہوئے۔ یہ اجلاس انگریزی اخبار کی ایک خبر کی وجہ سے غیرمعمولی بن گیا تھا، جس سے قومی راز افشا ہوئے، اس پر بحث ہوئی کہ 6 اکتوبر 2016ء کو شائع ہونے والی خبر کس نے لیک کی اور یہ کہ اخبار نے قومی سلامتی کی خبر کو چھاپنے میں کیوں احتیاط نہیں برتی یا شاید ملٹری قیادت نے یہ کہا ہے کہ اس سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اجلاس میں متفقہ طور پر اس خبر کو غلط، جھوٹی اور من گھڑت قرار دیا ، جس سے بھارت کو فائدہ پہنچا اور اداروں کے وقار پر سوال اٹھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ خبر کیسے نکلی، اگر سیکورٹی کے اجلاس کی خبر خفیہ نہیں رکھی جاسکتی تو اِس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ جہاں تک خبر کا تعلق ہے اخبار کے ایڈیٹر اِس بات پر قائم ہیں کہ خبر درست تھی، اس خبر کو چھاپنے سے پہلے کئی لوگوں سے تصدیق کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکورٹی اجلاس میں شریک ذمہ داران کی اکثریت یا اقلیت قومی سلامتی امور سے متعلق اجلاس کی اہمیت کو ہی نہیں سمجھتی۔ ایک صحافی تو خبر کی تلاش میں ہوتا ہے، جب ذمہ دار لوگ ہی اِس کا خیال نہیں کررہے ہیں تو ایک صحافی کیوں خیال کرے۔ زیر بحث خبر اُس اخبار میں شائع ہوئی جو معتبر مانا جاتا ہے۔ پھر اس کا ایڈیٹر کہتا ہے کہ اس نے اپنے قارئین تک صحیح خبر پہنچانے کی قسم کھا رکھی ہے تاہم اصولی اور قانونی بات یہ ہے کہ اگر کوئی صحافی بدنیتی یا کسی کی طرفداری یا ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے خبر دے تو وہ قابل گرفت ہے اور میڈیا ہاؤس بھی اس پر ایکشن ضرور لے گا اور ملکی ادارے بھی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اِس خبر میں کئی معاملات ایسے تھے جو حساس تھے، جیسے سیکرٹری خارجہ کا یہ کہنا کہ اگر جماعت الدعوۃ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کی گئی یا ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ کے واقعہ کی تحقیق نہ کی گئی تو پاکستان تنہا ہوجائے گا، اس خبر سے کافی غلط تاثر قائم ہوا اور کئی سوال اٹھے جس میں یہ بھی تھا کہ پنجابی طالبان کس کے اثر میں ہیں۔ جماعۃ الدعوۃ اور جیش محمد کو روکنے کیلئے بھارت نے مناسب بندوبست کئے ہوئے ہیں۔ اس نے لائن آف کنٹرول پر حساس آلات لگائے ہوئے ہیں جن میں بجلی دوڑتی رہتی ہے اور کسی بھی متحرک چیز کو فوری رپورٹ کرتی ہے، جہاں خار دارتاریں نہیں ہیں وہاں انہوں نے بارودی سرنگیں لگائی ہوئی ہیں، اسلئے کسی کا گزر تو ان راستوں سے نہیں ہوسکتا، بھارت کشمیر میں جو مظالم کررہا ہے اُسکے ردعمل میں اب وہاں تحریکیں چلتی ہیں تو وہ ایک فطری عمل ہے۔ جہاں تک انسانیت کا معاملہ ہے تو بھارت انسانیت کی دھجیاں بکھیر رہا ہے جبکہ کشمیریوں نے تو زخمی بھارتی سرحدی فورس کے زخمی سپاہی کی نہ صرف دیکھ بھال بلکہ اس کو اسپتال پہنچا کر انسانیت کا مثالی ثبوت دیا ہے، پھر جماعۃ الدعوۃ کے امیر کو عدالت نے ایک حکم کے ذریعے آزاد کیا ہے، اُن کو زیرحراست رکھنے کیلئے حکومت کو عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اِسکے علاوہ اگر سیکرٹری خارجہ نے تنہا ہونے کی بات کی ہے تو وہ صریحاً غلط اندازہ ہے، دُنیا کی بساط جس طرح سے بچھی ہوئی ہے اس میں پاکستان کے تنہا ہونے کا فی الحال سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بجز اسکے کہ اگر پاکستان اِس قسم کی خبریں نکال کر خود کو ہی ہتھکڑی پہنا دے۔ اصل سوال یہی ہے کہ یہ خبر کس نے نکالی اور اسکی تصدیق کس نے کی۔ اس خبر کے چھپنے کے بعد حقانی نیٹ ورک کے بارے میں 6 اکتوبر 2016ء کو ہی ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کردیا تھا کہ وہ بلاامتیاز کارروائی کرتے ہیں اور کسی کا دہشتگردوں کے معاملے میں خیال نہیں کرتے ۔ اگر خبر کو زیربحث لائیں تو اسکے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں جو بات ہوئی تو انہوں نے اپنے اوپر اٹھے سوال پر انتہائی بردباری کا مظاہرہ کیا اور وزیراعظم نے اُن کو تحفظ بھی فراہم کیا۔ تاہم صورتحال ایسی بن رہی ہے کہ پاکستان کےادارے صحافی کی بجائے اُن افراد کی تلاش میں ہیں جنہوں نے یہ خبر صحافی کو دی یا جنہوں نے تصدیق کی۔
ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کے کسی کھلاڑی کی میڈیا پالیسی کی وجہ سے یہ خبر نکلی، پھر بھی اگر ہمیں ڈی جی آئی ایس آئی کو موردالزام ٹھہرانا ہے تو معاملات بگڑیں گے۔ یاد رہے کہ جب جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر غیرقانونی طور پر قبضہ کیا تو اس وقت بھی ایک انگریزی اخبار نے جنرل پرویز مشرف کی سینہ پھلائی ہوئی تصویر چھاپی تھی اور میں یہ سمجھ گیا تھا کہ جنرل صاحب حکومت پر قبضہ کررہے ہیں، غوث علی شاہ جو اس وقت سندھ کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر مشیر تھے کا گیارہ اکتوبر 1999ء کوکہنا تھا کہ جنرل صاحب کہہ کر گئے ہیں کہ وہ 13 اکتوبر 1999ء کو سری لنکا سے آکر دیکھیں گے۔ بہرحال اس خبر کے شائع ہونے سے اختلافات کا تاثر پیدا ہورہا ہےاور یہ ملک کی کوئی خدمت نہیں ہوئی ہے۔ جس کسی نے بھی اِس خبر کو چھپوایا غلط کیا، اس بات سے سب واقف ہوں گے کہ کون اس میں ملوث ہے۔یہ ضرور خیال رکھا جائے کہ کسی ادارے کے سربراہ کی توہین نہ ہو، سوائے اِسکے کہ وہ کوئی فاش غلطی کررہے ہوں۔ ملک کے حالات ایسی کسی بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی مہم جوئی ہو، اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ کچھ ایسے ایکشن ضرور لئے جائیں کہ یہ تاثر زائل ہو کہ اداروں کے درمیان تنازع ہے۔ جس کسی نے بھی یہ خبر صحافی کو پہنچائی یا تصدیق کی اُس کو سزا کے عمل سے گزارا جائے، کسی عہدیدار کی توہین سے گریز کیا جائے، یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وزیراعظم کو سارے ادارے رپورٹ کرتے ہیں، اس لئے اس میں کوئی ابہام تو نہیں پھر اس خبر سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وزیراعظم خاص طور پر اپنے اختیارات استعمال کررہے ہیں یا کسی خبر سے یہ تاثر بھی نہیں جانا چاہئے کہ کسی کے اقدامات سے بھارت کو ذرا سا بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔


.
تازہ ترین