• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
6ستمبر کو یومِ دفاع ، 14اگست کو یومِ آزادی ، 23مارچ کو یومِ پاکستان اور23دسمبر کو میڈم نورجہاں کی برسی منانے کی تقاریب کا تصور ممکن ہی نہیں ہے جب تک کہ پیارے دیس کی فضائوں میں دشمنانِ وطن کے غرور اور تکبر کو زمیں بوس کردینے والے اور دُور اُفق کی بُلند فضائوںسے وارد ہونے والی آزادی کی چمکتی مچلتی کرنوں میں اِس شہرہِ آفاق قومی نغمے کی دلفریب دُھنیں ارتعاش پیدا نہ کردیں۔ یہ دُھنیںلامتناعی مسافتوںکو سَر کرلینے کے بعد منزل پا لینے کی راحت سمیٹے، وطن کی تقدیس اور حرمت کے جذبوں کو بے کنار اور پاک سرزمیں پر بہنے والے پانچ دریائوں کی موجوں میں تلاطم پیدا کردیتی ہیں۔ سیاہ رات کے بطن سے پھوٹتی سحر کے متلاشی جواں جسموں کے لہو کو گرما دینے اور آنیوالے موسموں میں مہک بکھیرنے والے معصوم بچوں میں نئی اُمنگ اور ترنگ پیدا کردینے والے نغمے کے بول ہیں ’’اِے پُترہٹاں تے نیئں وِکدے:تُوں لبھنی ایں وِ چ بازار کُڑے‘‘۔ تمام قومی تہواروں کے مواقع پر اکثر اوقات پنجابی زبان میں اِس شعری نغمے کے ٹیلیوژن اور ریڈیو پر پہلے ایک دو مصرعے ہی پیش کئے جاتے ہیں ۔ جن کا عام اُردو میں یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ ’’یہ بیٹے دکانوں پر نہیں بکتے:تُم بازار میں ڈھونڈتی پھر رہی ہو‘‘۔ پنجابی زباں میں اِس گیت کی نغمگی اور تاثیر،خوبصورت استعاروں، روایتی تماثیل، جدید اسلوب بیان اوردل موہ لینی والی علامت نگاری کے حسین امتزاج کے سنگ شعری لباس میں مستورنظر آتی ہے۔ الفاظ ، جملے، تراکیب اور علامتیں اِس قدر خالص صوتی آہنگ میں گائی گئی ہیں کہ پنجابی زبان کے ٹھیٹھ لہجے سے ناآشنا افراد کیلئے پورے نغمے کا مفہوم سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے لہٰذاایسے احباب کوپہلے شعر کے معنی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔
امسال یومِ آزادی کے دن شام ڈھلے چند دوست ایک عشائیہ میں شریک تھے کہ ٹی وی پر جشنِ آزادی منانے کے حوالے سے ملک بھر میں منعقدہ تقاریب کی روداد نشرہورہی تھی۔ اِسی تسلسل میں میڈم نور جہاں کی رَس گھولتی آواز میں صرف دو اشعار ’’ اِے پُتر ہٹاں تے نیئں وِکدے: تُوں لبھنی ایں وِ چ بازار کُڑے.......‘‘ بھی سماعتوں سے ٹکرائے۔ یہ عجیب جملہ ہے کہ ’’یہ بیٹے دکانوں پر نہیں بکتے‘‘۔ ایک صاحب معصوم بچوں کی سی حیرانی کے ساتھ لفظی معنوں پر زور دیتے ہوئے کہنے لگے ۔ اِس کے بعد گفتگو کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا۔ وہ دوست زور دے کر کہنے لگے کہ وطن عزیز پاکستان کا کون سا شہر اور کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں قوم کے بیٹے اور دیس کے فرزند ہر روز اور دن میں کئی کئی بار نہ بکتے ہوں؟ میڈم نورجہاں نے یہ نغمہ چونکہ پورے پچاس سال پہلے گایا تھا۔یہ طویل بے لگام ساعتیں نصف صدی کو نگل چکی ہیں ۔ اِن پچاس دہائیوں میں بہت سا پانی پُلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ وقت کی دُھول نے اُڑ اُڑ کر بہت سی قدروں اور اُسلوب کو تبدیل کردیا ہے۔ بیتے لمحوں کے قرطاس پر بہت سے لفٖظوں کے معنی اور مفہوم تبدیل ہوچکے ہیں۔ نئی لغت ترتیب دی جاچکی ہے۔ وہ بول رہا تھا۔کربِ زیست میں مبتلا اُس کا خون کھول رہا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ اُس کی بانجھ سوچ کے آتشدان میں بجھے انگارے پھر سے سُلگ اُٹھے ہیں۔ گہرا سانس لینے کے بعد کہنے لگا یہاں ہر عمر کے لوگ بکتے ہیں۔وزیروں اور مشیروں کا مول لگتا ہے۔ اعلیٰ ملازمتوں کے ہر گروپ سے تعلق رکھنے والے ادنیٰ سے اعلیٰ افسروں کا سودا ہوتا ہے۔ منتخب نمائندوں کی بھی قیمت ہے۔ اُستاد اور دانشوروں کے نرخ سب کو معلوم ہیں۔ تعلیمی بورڈ اور امتحانی سینٹرز فروخت ہوتے ہیں۔ خیر مظلوم اور شَر کی حکمرانی ہے۔ تُرک خاتون اَوّل نے اپنے گلے کا قیمتی ہار متاثرین سیلاب کی مدد کیلئے عطیہ کیا تو ملک کے وزیر اعظم نے اُچک لیا۔ وکیل ، صحافی، ادیب الغرض ہر شعبہ میں بڑی تعداد عام اجناس کی طرح بکنے کو تیار بیٹھی ہے۔ اب خریدار پر منحصر ہے کہ وہ کب آئے اور مول لگائے۔وہ دوست شدتِ جذبات سے بہت شکستہ دِل اور رنجیدہ سا ہوگیا تھا۔ اُس کی گفتگو میں ذرا سا توقف آیا۔ چند لمحوں کیلئے افسردہ سا سکوت۔ میں نے اُس کی ہمت بڑھانے کیلئے گفتگو کا آغاز کیا۔ اُس کے خیالات اور جذبات کی تصدیق کی۔ روح فرسا تلخ معاشرتی رویوں پر اُس کے زاویہ نگاہ کو سراہتے ہوئے عرض کیا کہ دراصل قیامِ پاکستان کے بعد ایک بالادست اور حکمران طبقہ پیدا ہوتا چلا گیا۔ جس نے تحریک پاکستان کے اصل اور حقیقی مقاصد سے روگردانی کی روش اپنا لی۔ پاکستان کے عوام حکمران اور محکوم طبقوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے۔ امیر، امیر تَر جب کہ غریب، غربت کی لکیر سے نیچے گرتا چلا گیا۔ آج ملک میں پستی، ناآسودگی، بے حسی، قومی تضادات، زوال پذیر اُمیدوں اور قوم میں پائی جانے والی اجتماعی مایوسی کے ذمہ دار ہم ہیں۔ صرف ہم۔ قوم کے دُکھ درد اور غم و آلام کے آسیب ہماری وجہ سے ہیں۔ ہم میرٹ پر عملدرآمد چاہتے ہیں لیکن صرف دوسروں کیلئے۔ قانون کی حکمرانی کا خواب بھی دوسروں کیلئے۔ حالات خراب ہیں، بہت خراب ہیں۔ لیکن۔ میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اُمید وں کا بندھن ابھی ٹوٹا نہیں۔آزاد وطن کی فضائیںاب بھی اُمید کے نغمے گنگناتی ہیں۔میں نے قدرے وضاحت سےبات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میڈم نورجہاں نے قومی نغمے میں دیس کے جن فرزندوں کا ذکر کیا ہے وہ عام بازاروں میں ملنے والے خمیر سے تعلق نہیں رکھتے ۔ وہ واقعی انمول ہیں۔ بہت عنقا و کمیاب ہیں۔ وہ دَھن دولت کے پُجاری نہیں۔ وہ کسی عہدے، مرتبے یا ظاہری شان و شوکت سے بھی بے نیاز ہیں۔ جی ہاں! یہ وہی بیٹے تو ہیں جو ارضِ پاک کے تقدس، حرمت اور عفت کی حفاظت پر جان قربان کرنے کیلئے ہروقت تیار رہتے ہیں۔ سیاچن کے گلیشئرز، کنٹرول لائن جموں و کشمیر،بھارتی اور پاک افغان بارڈر پر ہزاروں فٹ کی بلندیوںپربرفانی طوفانوں میں کُھلی آنکھوں، سنتے کانوں ، چوکس جسموں اور طویل رتجگوں کیساتھ پاک سرزمیں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ایک دو نہیں ہزاروں جوان اور افسرملک اور قوم کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ جہاںکیپٹن محمد سرور، میجر طفیل محمد، میجر عزیز بھٹی، پائلٹ آفیسر راشد منہاس، میجر شبیر شریف، میجر محمد اکرم اور کیپٹن کرنل شیر خاں جیسے افسر اپنی بے مثل بہادری پر نشانِ حیدر کا اعزاز پاتے ہیں تو وہیں آرمرڈ کور کے ایک ڈرائیور سوار محمد حسین، لانس نائیک محمد محفوظ اور حوالدار لالک جان جیسے جوان بھی دادِ شجاعت دینے پر نشانِ حیدر کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ایسے بیٹے کہاں ملتے ہوں گے جوچونڈہ کے محاذ پر دنیا میں ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ کے دوران اپنے سینوں پر بَم باندھ کر لیٹ گئے اور پورے علاقے کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں پولیس ، رینجرز اور افواجِ پاکستان کے ہر درجے کے مجاہدوں نے اپنی جانیں قوم کی آن پر نچھاور کردیں وہاں افواجِ پاکستان کے جرنیل بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اپنے تمام شہداء کیساتھ ساتھ قوم لیفٹیننٹ جنرل حافظ مشتاق احمد بیگ، میجر جنرل جاوید سلطان، میجر جنرل ثنااللہ خان اور میجر جنرل بلال عمر خان کو بھی سلام پیش کرتی ہے۔ آج ایسے ہی فرزندوں کیوجہ سے دشمنانِ وطن پر ہیبت اور لرزہ طاری ہے۔ طویل عرصے سے قوم کی دعائیں فلک کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنرل راحیل شریف کی صورت میں قوم کو ایک محبِ وطن، مخلص اور بے لوث سپہ سالار عطا کردیا جس نے ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ملک دشمن عناصر، دہشت گردوں اور بیرونی ایجنٹوں کا صفایا کردیا۔ قوم نے کراچی کو اُس کی روایتی روشنیاں واپس لوٹانے کا تقاضا کیا تو جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کور کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبرنے ہر طرح کی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف جماعتوں اور طبقات کی مضبوط پناہ میں موجود دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچانا شروع کردیا۔ سب دوست فرطِ جذبات میں اِس قدر مگن تھے کہ طویل گفتگو کا احساس ہی نہیں رہا۔ رات کی سیاہ چادرتمام مناظرِ قدرت کو پوری طرح اپنی آغوش میں لے چکی تھی۔سب دوستوں نے اِس بات سے اتفاق کیا کہ یہی مائوں کے وہ شہید’ پُتّر‘، بہنوں کے ’وِیر‘ اور بیویوں کے ’سہاگ‘ ہیں جووطن کی مٹی کو اپنے لہو کا نذرانہ دے کر، یا وہ غازی ،جو دشمن کوہر محاذ پر شکست سے ہمکنار کر کے ہمارے دامن خوشیوں سے بھر دیتے ہیں۔ دوستوں کی محفل برخاست ہونے لگی تو سب کے ہونٹوں پرفرطِ جذبات اور دادِتحسین سے لبریز ایک ہی جملہ تھا ’’اے پُتّر ہٹاں تے نئیں وِکدے‘‘۔
تازہ ترین