• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نواز شریف نے آذربائیجان کے دورے کے موقع پر دارالحکومت باکو میںپاک بھارت تعلقات ، مسئلہ کشمیر ، پاکستان کی مجموعی صورت حال، موجودہ سیاسی کشیدگی ، معیشت کی بہتری اورامن وامان کی بحالی سمیت کئی اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ آذربائیجان پالیمان کے اسپیکر سے ملاقات اور پاکستانی صحافیوں سے بات چیت میں وزیر اعظم نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ پاکستان نے کئی بار بھارت کو تصفیہ طلب مسائل پربات چیت کی پیش کی لیکن بھارت نے ہمیشہ مذاکرات سے گریز کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پر مذاکرات سے بھارت کا مسلسل فرار ہی اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ اس معاملے میں اس نے سراسر ناجائز موقف اختیار کررکھا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران تحریک انصاف کی احتجاجی مہم کے حوالے سے وزیر اعظم نے پراعتماد لہجے میں اعلان کیا کہ تیس اکتوبر کو اسلام آباد بند نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عناصر پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن انہیں ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا۔ بجلی کے بحران کے خاتمے، معیشت کی بحالی اور امن وامان کی بہتری کے حوالے سے وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے تین برسوں میں کیے گئے اقدامات اور ان کے مثبت اور حوصلہ افزاء نتائج پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ پاک چین اقتصادی راہداری پرکیے جانے والے اعتراضات پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں جو کچھ اتفاق رائے سے طے ہوا تھا منصوبے پر اسی کے مطابق کام ہورہا ہے۔حکومت کا یہ موقف اپنی جگہ لیکن اعتراضات کا سلسلہ جاری رہنے کی وجہ سے ضروری ہے کہ ان کا مکمل، واضح اور تسلی بخش جواب پوری قوم کے سامنے دیا جائے ۔ تمام حقائق منظر عام پر ہوں تو کسی ناجائز اعتراض کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔ موجودہ حکومت سے ہزار اختلافات کے باوجود کوئی بھی انصاف پسند شخص معیشت، امن وامان اور توانائی وغیرہ کے حوالے سے موجودہ دور میں آنے والی بہتری سے انکار نہیں کرسکتا۔ اس صورت حال کا سب سے بڑا سبب ملک میں آئین کی بالادستی اورجمہوریت کا تسلسل ہے۔ اس کے نتیجے میںعوام کارکردگی کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال سیکھ رہے ہیں۔ضمنی انتخابات میں رائے دہندگان کے فیصلے اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں۔ ملک کے بہتر اور محفوظ مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ آئینی و جمہوری نظام نہ صرف جاری رہے بلکہ مزید مستحکم اور بہتر بھی ہو اور سیاسی قائدین اور جماعتوں سمیت کسی بھی جانب سے کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو آئین و جمہوریت کے تسلسل کو ماضی کی طرح معطل کرنے کا سبب بن جائے۔حکمرانوں کے احتساب کیلئے آئینی ، عدالتی اور جمہوری طریقے اختیار کیے جائیں اور سڑکوں پر ایسے احتجاج سے گریز کیا جائے جو آئینی نظام کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہو۔اس تناظر میں پاناما لیکس کے حوالے سے تحریک انصاف کی موجودہ احتجاجی مہم جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اُسے ملک کے تمام جمہوریت پسند حلقے بالعموم تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کو ملک کی کسی بھی دوسری قابل ذکر سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔ لہٰذاہوشمندی کا تقاضا ہے کہ وہ سیاسی کشیدگی کو بڑھانے سے گریز کریںاور وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپنا موقف ثابت کرنے پر توجہ دیں جہاں دو دن بعد ہی تحریک انصاف کی درخواست سمیت پاناما لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم کے خلاف دائر کی گئی تمام درخواستوں کی سماعت شروع ہونے والی ہے۔دوسری جانب حکومت کو بھی اسلام آباد کو بند کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کیلئے کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جو اشتعال کا سبب بنے اور تشدد کی راہ ہموار کرے۔ سیاسی کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے آخری حد تک تحمل سے کام لیا جانا چاہیے اور افہام و تفہیم کے راستے تلاش کیے جانے چاہئیں تاکہ آئینی و جمہوری نظام کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو جو ملک کے اتحاد اور بقا و سلامتی کیلئے بہرصورت ناگزیر ہے۔

.
تازہ ترین