• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (آئی پی آر) نے 2015-16ء کی اقتصادی ترقی پر جائزہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ تیزی سے بڑھا ہے جبکہ ایکسپورٹس اور سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح زراعت کے شعبے کی کارکردگی مایوس کن رہی اور اہم فصلوں کی پیداوار میں 6.5 فیصد کمی واقع ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے درمیانی درجے کی کارکردگی دکھائی ہے لیکن پائیدار اقتصادی ترقی کیلئے حکومت کو بنیادی اصلاحات (Structural Reforms) لانا ہونگی۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے ملکی تاریخ میں پہلی بار20 فیصد گروتھ کیساتھ 3104ارب روپے کا ریکارڈ ریونیو ہدف حاصل کیا، بجٹ خسارے اور افراط زر میں نمایاں کمی ہوئی، بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا جو سالانہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں لیکن مڈل ایسٹ میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے باعث مستقبل میں ترسیلات زر میں کمی آسکتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015-16ء میں صنعتی گروتھ 3.2فیصد رہی، بینکوں کے مارک اپ میں کمی کی وجہ سے نجی شعبے کے قرضوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 105 فیصد اضافہ ہوا مگر اس میں صنعتی قرضوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کی 2016-17ء میں جی ڈی پی گروتھ کیلئے 5.5 فیصد گروتھ کا اشارہ دیا ہے۔ IPR کی رپورٹ میں بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے جس میں صرف 2015-16ء میں 7.3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔ حکومت کے بقول امن و امان اور آپریشن ضرب عضب کے اخراجات کیلئے حکومت کو 250 ارب روپے کے اضافی فنڈز کی ضرورت ہے۔حال ہی میں 2016-17ء میں حکومت نے ایک ارب ڈالر کے اسلامی سکوک بانڈز 5.5 فیصد شرح سود پر سرمایہ کاری حاصل کی ہے جس کی حکومت کو ادائیگی 2021ء میں کرنا ہوگی۔ سرمایہ کاروں نے اس بانڈ کی خریداری کیلئے 2.2 ارب ڈالر تک کی دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن حکومت نے ایک ارب ڈالر کے 5 سالہ سکوک بانڈز کا اجراء کیا جس میں زیادہ تر شمالی امریکہ، یورپ اور مڈل ایسٹ ممالک سے سرمایہ کاری ہوئی۔ اسٹیٹ بینک کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر 19.5 ارب ڈالر ہوگئے ہیں اور بینکوں کے فارن کرنسی ڈپازٹس ملاکر پاکستان کے زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 23 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب نے 750 ملین ڈالر کی دو ادائیگیوں سے مجموعی 1.5 ارب ڈالر پاکستان کو تحفے میں دیئے تھے جس کی ادائیگی پاکستان پر واجب الادا نہیں۔
حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے کمرشل بینکوں سے مقامی قرضے اونچی شرح سود پر لیتی تھی جس کی وجہ سے مقامی بینک محفوظ سرمایہ کاری کرکے بے انتہا منافع کمارہے تھے اور ان کا سالانہ منافع 40 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا جبکہ نجی شعبوں کو قرضے دینے میں بینکوں کی دلچسپی کم ہوتی جارہی تھی۔ پاکستان کی بہتر معاشی کارکردگی کی وجہ سے انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتری کرتے ہوئے اُسے مستحکم قرار دیا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو دوبارہ ایمرجنگ مارکیٹ انڈیکس (EMI) میں رجسٹرڈ کرلیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی بڑی کمپنیاں اب EMI میں ٹریڈنگ کرسکیں گی اور اس کے نتیجے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے جس کا اندازہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے انڈیکس میں ریکارڈ اضافے سے ہوتا ہے جو 41,400 انڈیکس کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس سرمایہ کاری میں بیرونی خریداروں، پورٹ فولیو انویسٹرز کی دلچسپی قابل ذکر ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی آخری قسط ملتے ہی وزیر خزانہ نے ایک ارب ڈالر کے اسلامک سکوک بانڈز 5.5 فیصد پر انٹرنیشنل مارکیٹ میں جاری کئے ہیں۔ اگر بھارت اور پاکستان کے مابین موجودہ کشیدگی نہ ہوتی تو یہ بانڈز 5.25فیصد منافع پر جاری ہوتے جبکہ اتنی ہی مالیت 104.5 ارب روپے کے حکومت کو مقامی بینکوں سے قرضے اس سے مہنگی شرح سود پر ملتے۔پاکستان اس سے پہلے جو بانڈز جاری کرچکا ہے جن کی ادائیگیاں 2017ء، 2025ء اور 2036ء میں کی جائیں گی لیکن پاکستان کی ماضی میں کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر یہ بانڈز اونچی شرح سود پر جاری کئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر 750 ملین ڈالر کا 2017ء میں ادائیگی والا بانڈز 6.18 فیصد منافع، 500 ملین ڈالر کا 30 ستمبر 2025ء میں ادائیگی والا بانڈز 8.25 فیصد منافع اور 500 ملین ڈالر کا 31 دسمبر 2036ء میں ادائیگی والا بانڈز 7.875فیصد منافع پر جاری کیا گیا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہے کہ ہمارے یہ بانڈز انٹرنیشنل مارکیٹ میں پریمیم پر ٹریڈ ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر 2025ء میں ادائیگی والا 100 ڈالر کا بانڈ 112 سے 113 ڈالر میں خریدا جارہا ہے جس کی وجہ بانڈز کی اونچی شرح منافع اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان کی معیشت پر اعتماد ہے۔ یہ بانڈز غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے جاری کئے گئے ہیں جن کے ممالک میں بینکوں کا شرح منافع منفی ہے لہٰذا پاکستانی بانڈز کا شرح منافع ان کیلئے پرکشش ہے۔
حکومت کو اپنے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں پر کنٹرول کرنا ہوگا اور انہیں قرضوں کے حصول کی حد (Debt Limitation Act) کے قانون کے تحت ملکی جی ڈی پی کا زیادہ سے زیادہ 60 فیصد تک رکھنا ہوگا۔بیرونی قرضوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد 11 ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے لئے گئے۔ جولائی 2013ء میں ہمارے بیرونی قرضے 61.85 ارب ڈالر تھے جو جولائی 2014ء میں بڑھ کر 65.36 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ جولائی 2015ء میں یہ قرضے 66.39 ارب ڈالر ہوگئے جو جولائی 2016ء میں بڑھ کر 72.97 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق 30 اگست 2016ء کو حکومت کے اسٹیٹ بینک، مقامی کمرشل بینکوں اور نیشنل سیونگ اسکیم سے لئے گئے مقامی قرضے گزشتہ سال کے 12.7 کھرب روپے کے مقابلے میں رواں سال 14.1 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ گزشتہ سال ایف بی آر کے 3104 ارب روپے کے ریونیو میں سے ہمارے 42.36 فیصد قرضوں کی ادائیگی میں چلے گئے۔ دوسرے نمبر پر 775.86 ارب روپے کے دفاعی اخراجات اور تیسرے نمبر پر ترقیاتی منصوبوں کیلئے 661.29 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ تجزیئے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حکومت نے مقامی قرضوں پر 1,112 ارب روپے اور بیرونی قرضوں پر 1,118.4 ارب روپے ادا کئے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ہمارے تمام ریونیو قرضوں اور سود کی ادائیگی میں صرف ہورہے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کیلئے ہمارے پاس فنڈز دستیاب نہیں۔ ملکی قرضوں کے باعث 2011ء میں ہر پاکستانی 46,000روپے، 2013ء میں 61,000روپے اور آج 2016ء میں 1,00000روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ ان قرضوں کیلئے ہم اپنے موٹر ویز، ایئرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے قرضہ دینے والے اداروں کو گروی رکھواچکے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ایک واضح حکمت عملی کے تحت مہنگے شرح سود کے قرضے واپس کرے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ کم کرسکیں۔



.
تازہ ترین