• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاوید میانداد اور شاہد آفریدی نے ہمارے سیاستدانوں کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔
دونوں نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے ، میڈیا نے ان الزامات کے بطن سے ایک بڑا طوفان پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن پھر کچھ خیر خواہ درمیان میں آئے ا ور دونوں کرکٹرز نے اپنے اختلافات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔دونوں نے ایک ملاقات کی اور آپس میں صلح صفائی کرلی۔ جن دنوں یہ ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے رہے تھے تو ایک شام مجھے شاہد آفریدی کا فون آیا۔ ان کے لہجے میں دکھ اور کرب تھا۔وہ جاوید میانداد کے خلاف قانونی کارروائی کا ارادہ کرچکے تھے۔ میں نے ان سے درخواست کی آپ نو اور دس محرم کی چھٹیوں میں خاموشی اختیار کریں بعد میں دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔انہوں نے میری رائے سے اتفاق کیا، پھر دونوں کے ایک مشترکہ مہربان سے درخواست کی کہ آپ غلط فہمیوں کی آگ کو بجھائیے۔ بھلا ہو دونوں کے دوستوں اور خیر خواہوں کا جنہوں نے انہیں پکڑ کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے لابٹھایا اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے مسکرانے لگے۔ اب دونوں کو اچھی طرح پتہ چل گیا ہوگا کہ ان کا اصل دوست کون ہے اور دشمن کون ہے۔ یہ دونوں تو اپنا برا بھلا جلدی سمجھ گئے لیکن ہماری سیاست کے میدان کے کھلاڑی سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کا رنگ دے کر ناصرف اپنے آپ کو بلکہ پورے جمہوری نظام کو تماشا بنارہے ہیں۔ سیاست کو عوام کی خدمت قرار دینے والوں کی زندگی کا اصل مقصد کرسی کا حصول بن جائے تو وہ عوام کی نظروں میں حقیر ہوجاتے ہیں۔ لوگ ان کے سامنے ان کی تعریف کرتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں مذاق اڑاتے ہیں۔پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان ان دنوں ایک دوسرے کو شیطان کبیر ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کے الزامات اور بیان بازی کو سن کر مجید لاہور ی یاد آجاتے ہیں جو کسی زمانے میں روزنامہ جنگ میں ’’حرف و حکایت‘‘کے نام سے کالم لکھا کرتے تھے اور اپنے مخصوص انداز میں سیاست پر شاعرانہ تبصرہ فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے کہا؎
پیشے ہیں جتنے جہاں میں کیا صغیر و کیا کبیر
ان میں یہ کرسی کا پیشہ ہوگیا کتنا حقیر
غم نہ ہو جس کو کوئی دنیا کا بن جائے وزیر
تم نہ پھنسنا ایسی کچی نوکری میں اے نظیر
مجید لاہور ی کے ان طنزیہ اشعار کی آمدنصف صدی سے بھی پہلے ہوئی تھی لیکن یہ اشعار آج کے حالات میں بھی تازہ لگتے ہیں کیونکہ ہماری سیاست ابھی تک کرسی کے گرد گھوم رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے۔ انہوں نے اپنے کچھ ریمارکس کی وضاحت کردی لیکن جمہوریت کے نام پر بادشاہت والے ریمارکس پر قائم رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک صحافی سرل المیڈا اپنی اسٹوری پر قائم ہے۔ سرل المیڈا نے ایک انگریزی اخبار میں جو لکھا وہ سب کو معلوم ہے اور ہم یہ باتیں کئی مرتبہ حکومت کی کچھ شخصیات کی زبان سے سن چکے ہیں لیکن ان باتوں کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے یہی وجہ تھی کہ سرل المیڈا کی اسٹوری شائع ہوئی تو حکومت اور فوج دونوں نے تردید کردی اور ہمارے لئے سرل المیڈا کادفاع خاصا مشکل کام تھا، پھر اس مشکل کو وزارت داخلہ نے آسان بنایا۔ سرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال کر ان کی تحریر کو انٹرنیشنلائز کردیا گیا جس طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے پیلٹ گن کے ذریعہ کشمیریوں کو اندھا کرنے کی کوشش کی لیکن پیلٹ گن نے مسئلہ کشمیر کو انٹر نیشنلائز کردیا، اسی طرح ایک صحافی کے خلاف ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا استعمال بھی پیلٹ گن جیسا تھا۔ سرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں آنے کے بعد پاکستان میں آزادی صحافت نہیں بلکہ پاکستان کی جمہوریت اور قانون بھی پوری دنیا میں ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ یہ پوچھا جانے لگا کہ صحافی کو تو ملک دشمن بنادیا گیا لیکن اس خبر کو’’فیڈ‘‘ کرنے والے آفیشل کا کہیں ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا پاکستان کی قومی سلامتی اتنی کمزور ہے کہ ایک اخبار کی بے بنیاد اور من گھڑت خبر سے ڈانواں ڈول ہوجاتی ہے؟ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پی ٹی وی پر زبردستی بٹھا کر ایٹمی مواد کی چوری کا اعتراف کرایا گیا اس وقت بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ یہ کام ڈاکٹر صاحب نے اکیلے کیسے کرلیا؟ اندر والوں کو چوری کا پتہ نہ چلا، باہر والوں نے شور مچایا اور ہم نے ڈاکٹر صاحب سے اعتراف جرم کراکر سب الزامات درست تسلیم کرلئے۔ اس وقت قومی سلامتی کیسے بچ گئی؟ اس کے بعد ایبٹ آباد میں پی ایم اے سے کچھ دور اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن ہوگیا۔ آپریشن کرنے والے خاموشی سے افغانستان کی طرف سے ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر آئے اور کارروائی کرکے واپس چلے گے ۔ کچھ سال گزرنے کے بعد پتہ چل رہا ہے کہ یہ آپریشن کچھ اندروالوں کی ملی بھگت سے ہوا تھا۔ میرا اشارہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی طرف نہیں بلکہ کچھ ایسی شخصیات کی طرف ہے جنہوں نے ریمنڈڈیوس کو پاکستان سے بھگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں سے ایک کردار تو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری تھے لیکن ان کے اختیارات کا یہ عالم تھا کہ وہ ایوان صدر میں قیدی کی زندگی گزارتے تھے اور رات کو سرہانے بندوق رکھ کر سوتے تھے۔ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کسی اور نے کرایا اور الزام زرداری صاحب پر آگیا تھا۔ انہیں میموگیٹ اسیکنڈل کے ذریعے قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا گیا۔ آج کل وہ بیرون ملک ہیں لیکن جلد واپس آنے والے ہیں۔ 16اکتوبر کو کراچی میں پیپلز پارٹی کی بڑی ریلی دراصل زرداری صاحب کی واپسی کی تیاری تھی۔ وہ واپس آکر نواز شریف کو’’ٹف ٹائم‘‘ دیں گے لیکن وہ نہیں کریں جو عمران خان کررہے ہیں۔ زرداری صاحب کا خیال ہے کہ اگر کوئی چہرہ تبدیل ہوا تو عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس طریقے سے تبدیل ہوگا جس طرح یوسف رضا گیلانی تبدیل ہوئے تھے۔ گیلانی صاحب سے نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی نے دو دن قبل خاموش ملاقات کی اور مشکل وقت میں مدد کی درخواست کی۔ اس درخواست پر آصف علی زرداری کی وطن واپسی پر فیصلہ ہوگا۔
مسلم لیگ(ن) کو اصل خطرہ عمران خان سے نہیں بلکہ اپنے اندر سے ہے۔ ان اندر والوں نے سرل المیڈا کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ان کی مجرمانہ غلطی بڑے بڑوں کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر لائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کو پاناما پیپرز کا معاملہ طے کرنا ہوگا ورنہ قلندر خان اور میاں صاحب کی لڑائی ختم نہ ہوگی، بقول مجید لاہوری؎
گفتار کا غازی بن بھی چکا
کردار کا غازی بن کے دکھا
دھن دولت سب کنگلوں میں لٹا
جاگیر سے اپنی ہاتھ اٹھا
کہتا ہے قلندر خان میاں
تو اپنی خودی پہچان میاں



.
تازہ ترین