• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کی ریاست گوا میں اتوار کے روز ختم ہونے والا پانچ ترقی پذیر ممالک کی تنظیم برکس کا سالانہ سربراہی اجلاس دنیا کے کئی ممالک کے اقتصادی بحران کی زد میں آنے کے منظر نامے میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ اجلاس نہ صرف رکن ممالک کی معاشی ترقی میں قابل قدر کردار رکھتا تھا بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں کو بھوک اور افلاس کے بڑھتے ہوئے سایوں سے بچانے کا باعث بھی بن سکتا تھا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے سر میں اپنے برسراقتدار آنے کے وقت سے پاکستان کو تنہا کرنے اور اس کیلئے مشکلات کھڑی کرنے کا ایسا سودا سمایا ہوا ہے کہ انہوں نے اس اجلاس کو بھی اپنے مذموم عزائم کیلئے استعمال کرنے میں کوئی عار نہ سمجھا۔ جنوبی افریقہ، بھارت، برازیل، چین اور روس کے سربراہوں نے اجلاس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں درست طور پر دہشت گردی کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے اور عالمی برادری کو نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے اس کا پوری طرح ادراک بھی ہے مگر پاکستان سمیت متعدد ممالک نائن الیون سے پہلے بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے کے باعث اس خطرے کے سدباب کے اقدامات پر توجہ مبذول کرچکے تھے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے اور اس سے ملحقہ ممالک کو سات عشروں سے دہشت گردی کے جن خطرات کا سامنا ہے ان کا مرکز و محور بھارت ہے۔ 1947میں برٹش انڈیا کی آزادی کے اعلان کے فوراً بعد ہندو انتہا پسند تنظیموں اور بھارتی فوج کے اشتراک سے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہو، چینی علاقے تبت میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑ ہو،پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں (حیدرآباد دکن، جونا گڑھ ، مناودر، مانگرول) کے علاوہ گوا، دمن اور دیو کے علاقوں پر فوجی قبضہ ہو، مشرقی پاکستان میں بھارتی ایجنٹوں کی سرگرمیوں سے لے کر فوجی حملے کے ذریعے بنگلہ دیش کا قیام ہو یا سری لنکا کی بغاوت یا کئی آزاد ہمالیائی ریاستوں کا بھارتی سیٹلائٹ ریاستوں کی شکل اختیار کرنا۔ ان سب معاملات میں بھارت کی اسٹیٹ مشینری نہ صرف ملوث رہی بلکہ وقتاً فوقتاً فخر کا اظہار بھی کیا گیا۔ 1971کے بعد کے پاکستان کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے برملا اعلانات بھی ریکارڈ پر ہیں ،اور آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں طالبان کے غیرموثر ہونے کے بعد داعش کو پاکستان میں داخل کرنے کے مذموم عزائم بھی۔ بھارت کےاندر رونما ہونیوالے جن واقعات کے حوالے سے پاکستان پر انگلی اٹھائی گئی، وہ بھی بھارت ہی کے مستند ذرائع سے نئی دہلی سرکار کے خود تخلیق کردہ ثابت ہوچکے ہیں۔ ’’برکس تنظیم‘‘ کے مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کی ہر صورت کی مذمت برمحل اور وقت کی ضرورت ہے۔ مگر نئی دہلی سرکار نے اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی بجائے کوشش کی کہ اس مشترکہ اعلامیے کو ’’اوڑی‘‘ حملے کی مشکوک کہانی کے پرچار اور پاکستان کی مذمت کیلئے استعمال کیا جائے تاہم چین اور روس کی مخالفت کے باعث نریندر مودی کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ بھارتی حکومت کو ایک اور خفت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب چین نے نئی دہلی میں ہونیوالے وزرائے تجارت کے اہم ترین اجلاس میں شرکت سے عین وقت پر انکار کردیا جس کے باعث یہ اجلاس منسوخ کردیاگیا۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور ترجمان دفتر خارجہ نے نریندر مودی کی برکس اجلاس میں اسلام آباد کیخلاف ہرزہ سرائی کا بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی بلوچستان میں گرفتاری جیسے حوالوں سے مسکت جواب دیا ہے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ متحرک سفارت کاری کے ذریعے بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور عالمی برادری کو بتایا جائے کہ نئی دہلی سرکار پاکستان پر الزامات عائد کرکے ایک طرف اس بھارتی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہی ہے جس کو پاکستانی فوج اب آخری انجام کی طرف لے جارہی ہے۔ دوسری جانب ان الزامات کا مقصد ان مظالم کی پردہ پوشی ہے جو پچھلے 100دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلسل کرفیو، 150افراد کے بہیمانہ قتل، ہزاروں افراد کو پیلٹ گنوں سے نابینا اور معذور بنانے کے علاوہ پوری مقامی آبادی کو بدترین انسانی مصائب میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔

.
تازہ ترین