• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آبادی کے لحاظ سے پاکستان د نیا کا چھٹا ملک ہے۔ معیشت استوار ہے۔ پاکستانی افراد دنیا میں بہترین افراد میں سے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کے محنت کش اور انجینئر اہلیت کی وجہ سے ڈیمانڈ میں ہیں۔ کاروباری طبقہ خوبیوں کا حامل ہے۔ ان وسائل کی وجہ سے ہی پاکستان کی65 سالہ تاریخ میں متعدد زیرو زبر کے باوجود اوسطاً جی ڈی پی کی شرح تقریباً پانچ فیصد رہی ہے جو مناسب ہے!
پاکستان زرعی ملک ہے۔ اس کا شمار دنیا کے بہترین زرعی ممالک میں ہوتا ہے۔ ہند و پاک کی تقسیم سے پہلے برصغیر کی خوراک کی جملہ ضروریات موجودہ پاکستان سے پوری ہوتی تھیں۔ گزشتہ دنوں بد ترین سیلاب کی وجہ سے ملک کے کچھ حصوں میں شدید تباہ کاریاں ہوئیں۔ اسکے باوجود گندم اور چاول کی فصل وافر تھی ۔ملکی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ یہ اجناس برآمد بھی کی گئیں۔ روئی اور کپڑے وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اس عمل سے اشیائے صرف کی مانگ زیادہ ہوئی۔ معیشت میں عمومی جبکہ ریٹیل بزنس میں خصوصی طور پرتیزی آئی۔ اسٹاک ایکسچینج پر رپورٹ ہونیوالی متعددکمپنیوں کی کار کردگی نے ریکارڈ قائم کیا ہے۔
پاکستان تیل،گیس،کوئلے،تانبے،چاندی اور سونے جیسی معدنیات سے مالا مال ہے۔ ان ذخائر کو دریافت کرنے اور ان سے مستفیض ہونے کیلئے خاطر خواہ کو شش درکار ہے۔ یہ ذخائر اتنے ہیں کہ نہ صرف مقامی ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ وافر مقدار میں برآمد بھی کئے جا سکتے ہیں۔اس وقت ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر18ارب ڈالر ہیں۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیل ِ زر بھی بلند ہے جو اوسطاً1ارب ڈالر ماہانہ ہے۔ کرنٹ اکائونٹ مثبت ہے جو کبھی نہیں ہوا۔ توقع ہے کہ برآمدات تقریباً 25 ارب ڈالر اور درآمدات34 ارب ڈالر ہونگی۔ موخرالذکر لمحہِ فکر ہے۔ اگر درآمدکی جانے والی اشیاء مقامی طور پر تیار کی جا ئیں تو درآمدات سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے جس سے زرِ مبادلہ کی بچت ہوگی۔ سرمایہ کاری، پیداوار اور برآمدات کے مواقع بھی مہیا ہونگے۔ درحقیقت پاکستان ترقی یافتہ ممالک کے نام لیوا لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن اور پرائیوٹائزیشن پر عمل پیرا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ یورپین یونین اورفاٹا جیسی مارکیٹوں میں آزا د تجارت پر پابندی ہے۔ امریکہ کا بھی یہی قول ہے۔ درآمدات میں اضا فے کے پیشِ نظرامریکن محصولات میں اضافے یعنی ٹیرف جیسی رکاوٹیں رہتی ہیں۔ اس عمل سے آزادانہ تجارت کی نفی ہوتی ہے۔عام طور پردیگر ممالک اور خاص طور پر پاکستان کو امریکی، یورپی اور دیگر مارکیٹوں تک رسائی نہیں ۔سال بہ سال پاکستانی ٹیکسٹائل کو مصنوعات برآمد میں پس و پیش ہوتی ہے۔ اسکے بر عکس امریکہ،یورپین یونین،چین وغیرہ سے دنیا بھر میں آزادانہ درآمدات ہوتی ہیں جس میں اسمگلنگ اور انڈر انوا ئسنگ ہے ۔ کسٹم ڈیوٹی ادا کی جاتی ہے نہ سیلز ٹیکس۔ مگر ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں صورتِ حال با لکل مختلف رہی ہے۔ بانی رہنما نہرو کے زمانے سے انڈیا اس پالیسی پر کار بند ہے کہ جو اشیاء انڈیا میں پیدا ہو تی ہیں وہ درآمد نہیں کی جا سکتیں۔ حال ہی میں جب انڈیا کی معیشت دنیا بھر میں متقابل ہوئی تو اسکے وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے کچھ چھوٹ دی تھی ۔ انڈیا نام نہاد امداد اور قرضوں کے حق میںبھی نہیں ۔ ملائیشیا کی صورتِ حال بھی ایسی ہی ہے ۔ اس نے اپنے ہی وسائل پر انحصار کیا اور بین الاقوامی ادارے یعنی آئی ایم ایف کی مدد قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس طرح وہ عالمی طاقتوں کے چنگل سے آزادہے۔ پاکستان کیلئے یہ دو ملک یعنی انڈیا اور ملائیشیا مشعلِ راہ ہیں۔پاک و ہند کی تقسیم کے وقت پاکستان کے پاس خاطِر خواہ وسائل نہیں تھے۔ پاکستان نے اس سلسلے میں امریکہ سے مدد مانگی جو امریکہ نے قبول تو کر لی لیکن ا مداد کو علاقائی تعاون بلکہ علاقی تابعداری یعنی Camp Follower سے مشروط کر دیا ۔ سو پاکستان ’’ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا ‘‘ ۔ پاکستان برطانیہ کے چنگل سے نکل کر امریکہ کے زیرِ ِ دست ہوگیاجو بد ترین نہیں تو بد ضرور ہے!
لہٰذا تقسیم کے بعد پاکستان برطانیہ اور اس کے بعد امریکہ کے زیرِ اثر ہے اصلیت یہ بھی ہے کہ امریکہ اپنی خواہشات کے مطابق پاکستان کو استعمال کرتاہے۔ استعمال کرنے کے بعد پھر اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے۔ روس اور افغانستان کی جنگ کے نتیجے میں مجاہدین ظہور پذیر ہوئے جنہیں اب طالبان کہا جاتا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ یہ پیداوار امریکہ کی ہیں اور امریکہ ہی انہیں پروان چڑھا تا رہا ہے اور یہ کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ بلا مبالغہ علاقائی سا لمیت کی قیمت پر لڑی جا رہی ہے۔ کس کی سا لمیت! یہ اظہر من الشمس ہے۔ امریکہ کو اس حقیقت سے فرار نہیں ہونا چاہئے اور پاکستان کو بھی۔
بین الاقوامی ادارے یعنی آئی ایم ایف کی امداد اور قرضے امریکہ کی شرائط پر ملتے ہیں ۔ پاکستان کو یہ امداد اور قرضے بنیادی طور پر ڈونرز یعنی امداد دینے والے ممالک کے ہاں سے خریداری کیلئے ملتے ہیں نہ کہ ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کیلئے یعنی موخرالذکر بالخصوص پانی،بجلی،گیس وغیرہ ۔ شرط ہوتی ہے کہ امداد وصول کرنے والے ممالک مشینری،پُرزے اور خام مال وغیرہ ممد ممالک سے ان کی من مانی شرائط پر درآمد کریں گے۔
ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ ان قرضوں اور امداد کا انتظام اور نگرانی ا مداد دینے والے ممالک کے ماہرین ہی کریں ۔ یوں امداد کا ایک حصہ انکے معاوضے کے طور پرواپس انہی کو چلا جاتا ہے ۔ کم و بیش ہی حصہ امداد وصول کرنے والے ممالک کے ہاتھ آتا ہے۔ لیکن پورے قرضوں کی ادائیگی انہیں اپنے زرِ مبادلہ سے کرنا پڑتی ہے۔ مزید برآںآزادانہ درآمدات کی وجہ سے مقامی سرمایہ کاری،پیداوار اور برآمدات کے مواقع ضائع ہوتے ہیں۔یہ گلو بلا ئزیشن ہے۔اسکے بر عکس پاکستان نے بنیادی صنعتوں کی نیشنلائزیشن کی وجہ سے بھی کافی نقصان اٹھایا ہے۔ لیکن نیشنلائزیشن ہو یا آزاد معیشت ،نتیجہ وہی ہے جو بقول آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب ڈومنیق ا سٹراس کاہن کے ’’بے روز گاری، سماجی بے راہ روی اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا‘‘۔ اس امر سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے پاکستان میں غریب ترین طبقے کو قومی آمدنی میں سے صرف چار فیصد حصہ ملتا ہے جبکہ دس فیصد امیر ترین طبقے کو ستائیس فیصد !دوسری طرف آزاد معیشت کے نام پر پاکستان اسمگلنگ،انڈر اِنوائسنگ اور ٹیکس چوری کی جنت ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریوینو اور ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کی 57فیصد متوازی معیشت ہے جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ ملک کی مجموعی سالانہ آمدنی تقریباً2.5کھرب روپے ہے۔ اگر اس 57 فیصد معیشت پر ٹیکس ادا کیا جائے تو آمدنی تقریباً4کھرب روپے ہو سکتی ہے جو پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضوں اور امداد کی مجموعی رقم 38ارب روپے سے کہیں زیادہ ہے۔2007ءسے آج تک قرضوں کی ادائیگی نہیں کی جاسکی جسکی وجہ سے قرضے کی کل رقم4.7 کھرب روپے سے بڑھ کر 17کھرب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اب تو امداد دینے والے ممالک نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ امداد لینے والے ممالک اولاً اپنے وسائل پر انحصار کریں ۔ بالعموم یہ مشورہ مفید ہے کیونکہ قرضوں اور امداد کی وجہ سے ہی یہ ممالک اپنی سیاسی،سماجی اور اقتصادی خود مختاری کھو رہے ہیں۔ پاکستان دنیا میںایسی مثال ہے جس کے بارے میں کچھ نہ ہی کہنا بہتر ہو گا ۔
پاکستان کی اقتصادی ، سماجی اورخارجہ پالیسی جو با لفاظِ دیگر نام نہاد علاقائی تعاون اور در پردہ غلامی کے زمرے میں آتی ہے، اسے اس کےبرعکس کرنا ہوگا۔ اگر تمام وسائل کو یکجا کر کے دانشمندی سے استعمال کیا جائے تو پاکستان امداد دینے والے ممالک پر انحصار ختم کر کے سماجی،سیاسی اور معاشی خود مختاری حاصل کر سکتا ہے۔اس طرح سرمایہ کاری،پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہو گا جس سے روزگار کے مواقع اور خود انحصاری کا رحجان پیدا ہو گا اور اسی سے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے غیر ملکی مارکیٹوں میں رسائی بھی ملے گی۔یہ اپنی معیشت تک اپنی رسائی ہے نہ کہ امریکہ،برطانیہ یا دوسرے ممالک یا آئی ایم ایف وغیرہ کی۔ اقتصادی خود مختاری کیلئے ملک کو اسی امر کی ضرورت ہے۔سو پاکستان کو بیر ونی عوامل کی ترجیحات کے بجائے قومی مفاد کے مطابق پا لیسی تشکیل دینا چاہئے۔ ورلڈ بینک کے سابق صدر بھی اسی نظریے کے حامی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے ’ کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے لوگوں کی امید یں معدوم ہو ئیں۔ ان کی مایوسی،نا امیدی مزید زوال پذیر ہوگی۔ایسے میں مقامی ملکیت اور مقامی شراکت کی ہی ضرورت ہے۔ وہ دن گئے جب ترقیاتی منصوبے واشنگٹن یا مغربی دار ا لحکومتوں یا کہیں اور بند دروازوں میں بنا کرتے تھے‘‘۔لہٰذا گلوبلائزیشن نہیں، گلوکلائزیشن عوام کی ضروریات پوری کرسکتا ہے جس میں مقامی معیشت تک از خود رسائی اور خود انحصاری مضمر ہے۔ اس سے معیشت کو استحکام ملے گا،روز گا ر فراہم ہو گا اور عوام کو روٹی،کپڑا اور مکان ملے گا ۔
مزید برآں ڈونر یعنی امداد دینے والوں پر انحصار جاری رہا تو ملکی سا لمیت اور ملک و قوم کی خو د مختاری ناپید ہوجائے گی۔
آج کی شب جب دیا جلائیں اونچی رکھیں لو
تازہ ترین