• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اوائل عمری میں دلیپ کمار،فیض احمدفیض،محمدعلی (کلے)اور ذوالفقار علی بھٹوسے ملنے کی خواہش تھی جو مختلف اوقات میں کسی نہ کسی طرح پوری ہو ئی اور واقعتا ًان شخصیات کو اپنے تصور سے کہیں زیادہ قد آور پایا۔ایک طویل عرصہ بعد اب ایک ایسی پر عزم خاتون سے ملنے کی خواہش جاگی جس نے ملاوٹ زدہ معاشرے میں انقلاب برپا کر دیا۔لیکن گزشتہ دنوں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ایک میٹنگ میں سامنے آنے پر بھی اس خاتون سے یہ سوچ کر نہیں ملا کہ ضرورت سے زیادہ تعریف اور ضرورت سے زیادہ تنقید انسان اصل مقصد اور راستے سے ہٹا دیتی ہے۔خدشہ اور خوف دامن گیر ہو ا کہ تعریف وتوصیف اس کی لگن اور عزم کو نقصان نہ پہنچا دے اور ہم اس جہادی عورت سے محروم نہ ہو جائیں۔
عائشہ ممتاز جس نے ملاوٹ کے خلاف جہاد کا تن تنہا آغاز کیا اور کسی دبائو کی پرواہ کیے بغیر معصوم عوام کی رگوں میں ملاوٹ کا زہر اتارنے والے بااثر لوگوں کو دیوار کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا۔اور یہ ثابت کردیا کہ وہ تنہاء برائی کے خلاف لڑنے کی جرأت رکھتی ہے اور یہ بھی ثابت کیا کہ ایک شخص پورے نظام کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن لگن ، ایمانداری اور وطن سے محبت اس کےلیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔پاکستان کی طویل تاریخ میں مختصر ترین عرصہ میں خوبصورت انداز میں اپنا کردار ادا کرنے والی عائشہ ممتاز نے معاشرتی اور مذہبی حدود میں رہتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اگر عورت چاہے تو معاشرے کو گندگی سے پاک کرنے اور عوام کی اصلاح کےلیے بھرپورکردارادا کرسکتی ہے۔
Men Dominating Societyمیں اس قدر دلیر ، حوصلہ مند اور طوفانوں سے ٹکرا جانے والی خواتین کے کردارپر مردوں کی طرف سے انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔لیکن عائشہ ممتاز کے حوالے سے ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ عائشہ ممتاز معاشرے کی ان برائیوں اور حالات کی نزاکت سے بخوبی آگاہ ہےاور وہ برائیوں سے ٹکرانے کے باوجود محتاط اندازمیں قدم اٹھاتی ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسے وزیر اعلیٰ پنجاب کی مکمل حمایت حاصل ہے۔جس نے اس کے حوصلوں میں کئی گنااضافہ کردیاہے۔
اس خاتون کو رب العزت نے اس کی لگن ، ایمانداری اورمحنت کے عوض وہ مقام اور مرتبہ دیا جو آج تک کسی بیوروکریٹ کے حصے میں نہیں آیا۔اس کی عزت میں کئی گنا اضافہ ہوا جب وزیر داخلہ نے وفاقی دارلحکومت کی انتظامیہ کی تربیت کےلیے اس کی خدمات مستعار لی ہیں۔عائشہ ممتاز اسلام آباد انتظامیہ کو دلجمعی اور محنت سے کام کرنے اور اسے نتیجہ خیز بنانے کے گر سکھائے گی۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ دنوں بلائے جانےوالےایک اجلاس میں عائشہ ممتازکو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی اوراجلاس کو بتایا حکومت پنجاب سے دو روز کےلیے اس کی خدمات مستعار لی ہیں۔وزیر داخلہ نے کھلے دل سے اس خاتون کی تعریف کی اور اسلام آباد انتظامیہ کو اس خاتون کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ہدایت کی جس کے جواب میں اسلام آباد کی انتظامیہ نے اسسٹنٹ کمشنرز کی سربراہی میں سات ٹیمیں تشکیل دیں جو پہلے عائشہ ممتازاور پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیم سے تربیت حاصل کریں گے اور پھر اسلام آباد میں اشیاء خورونوش میں ملاوٹ کے خلاف مہم شروع کردیں گے۔مشاہدے میں آیا ہے کہ خواتین سرکاری، نیم سرکاری یا نجی اداروں میں مردوں کی نسبت زیادہ لگن ، شفافیت اور محنت سے کام کرتی ہیں اور ان میں معاشی بدعنوانی کے جراثیم نہ ہونے کے برابرہوتے ہیں۔مرد کرپٹ اور بدعنوان ہو سکتاہے۔مفادات کےتحت حالات سے سمجھوتا کرسکتا ہے لیکن خواتین ایمانداری پر یقین رکھتی ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتی ہیں۔اگر کوئی خاتون معاشی بدعنوانی کی زد میں آجاتی ہے تو وہ ضرور مردوں کے جانب سے راہ سے بھٹکائی جاتی ہے۔عائشہ ممتازجو آج معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ، کوئی مقابلے کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں ہوئی بلکہ عام حیثیت میں ملازمت اختیار کی اور اپنی لگن ، ایمانداری ، محنت سے مقابلے کے امتحان پاس کرکے سی ایس ایس اور پی سی ایس کے ذریعے اعلیٰ عہدے حاصل کرنے والوں سے زیادہ اعلیٰ مقام حاصل کرلیا اور ان کےلیے مشعل راہ بن کر ابھری ہے۔عائشہ ممتازکے اعمال ان اعلیٰ تعلیم یافتہ لیکن کام نہ کرنےپرایمان رکھنے والے بیوروکریٹس کےلیے شرم کی علامت ہے۔آج عوام کی خواہش ہے کہ ایمانداری سے کام نہ کرنے والے کرپٹ بیوروکریٹس عائشہ ممتاز کے نقش قدم پر چل کر قوم وملک کی ترقی میں اپنا تھوڑا تھوڑا حصہ ڈالیں تو یہ ملک دنوں میں ترقی کی منزلیں طے کرسکتا ہے۔عائشہ ممتاز عورتوں کےلیےمشعل راہ اور مردوں کے لیےشرم کا احساس ہے۔عائشہ ممتازنے اپنے اعمال سے ثابت کیا ہے کہ وہ عظیم باپ کی عظیم بیٹی ہے۔اس کی رگوں میں رزق حلال ہے۔حرام کا ایک نوالہ بھی اس کے حلق میں نہیں اتارا گیا۔ وہ ایک سچی اور سُچی پاکستانی ہے۔ برائی کے ساتھ لڑنا اس کا ایمان ہے۔ کاش ایسا ممکن ہوسکےکے اس پرعزم اوربےخطر خاتون کو فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ بھی اصلاح احوال کےلیے استعمال کیاجاسکے۔لیکن کرپٹ بیوروکریسی کےلیے زیادہ عرصہ تک یہ قابل برداشت نہیں ہوگی۔
ایسی دلیر اور جرأت مند خاتون کی حوصلہ افزائی اور معاشرے کی اصلاح کی لگن رکھنے والی ہزاروں خواتین کو اس قافلے میں شامل کرنےکےلیے حکومت کی جانب سے اعلیٰ سول ایوارڈ دیا جانا چاہیے۔
تازہ ترین