• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھرنا روکنے کیلئے پولیس اور رینجرز کی بڑے پیمانے پر تعیناتی زیر غور

اسلام آباد (صالح ظافر) وفاقی دارالحکومت میں انتظامیہ پنجاب کی صوبائی حکومت کے ساتھ مشاورت میں مصروف ہے تاکہ 2؍ نومبر کو پی ٹی آئی کی شورش اور اسلام آباد کو بند کرنے کی کوشش کو روکا جا سکے۔ حکومت کے ذرائع کو معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی آئی ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، بس اڈے، سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز کو بند کرنا چاہتی ہے۔ حکومت اس بندش کے نتیجے میں عوام، سرکاری ملازمین، مریضوں اور  کاروباری افراد کو درپیش دشواریوں اور پریشانی سے بچانے کیلئے اقدامات کا جائزہ لے رہی ہے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو دارالحکومت بند کرانے اور حکومت کو کام کرنے نہ دینے کی دھمکی ایک بڑا جرم ہے۔ عام حالات میں کوئی شخص کسی دوسرے کو کاروبار بند کرنے کی دھمکی دے تو فوراً وہ شخص اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے مقدمہ درج کرائے گا۔ اسی طرح ملک میں حکومت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک طرف سی پیک کے منصوبے چل رہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی۔ ضرب عضب کی کارروائیاں اور سرحد پر بھارت کی اشتعال انگیزیاں جاری ہیں اور پاکستان کی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن معیشت کو پی ٹی آئی کے دھرنے سے عوام، کاروبار، ملکی سلامتی اور معیشت کو نقصان ہوگا اور ملک دشمن قوتوں اور دشمن ممالک کو فائدہ ہوگا۔ اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت مختلف اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت کے مخالفین کی جانب سے بھی اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے اور عدلیہ سے حکم امتناع حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں افواہوں کا سلسلہ جاری ہے اور لوگ آنے والے دنوں کی ممکنہ صورتحال کے حوالے سے اندازے لگا رہے ہیں۔ ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ فوج کی خدمات حاصل کرنے کا کوئی آپشن زیر غور نہیں بلکہ ان کی جگہ سویلین مسلح فورسز اور رینجرز کو بڑے پیمانے  پر استعمال کیا جا ئے گا تاکہ شورش کو روکا جا سکے۔ صف اول میں پولیس کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور اسے تیار رکھا گیا ہے۔ اشتعال انگیزی پھیلانے والے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو جیل میں ڈالا جائے گا جبکہ امکان ہے کہ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کو رواں ماہ کے آخر تک گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس مقصد کیلئے اسلام آباد انتظامیہ نے دو ریسٹ ہائوسز کو خالی کرا لیا ہے جبکہ انہیں جیل میں ڈالنے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ اشتعال انگیز زبان استعمال کرنے والوں کو فوجداری دفعہ کے تحت گرفتار کیا جائے گا۔ ویڈیوز اور دیگر دستاویزی ثبوتوں کی شکل میں شواہد جمع کر لیے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتاریوں کے متعلق فیصلہ آئندہ ہفتے وزارت داخلہ کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا جائے گا۔ ذرائع نے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین کا غصہ اسلئے بڑھ گیا ہے کیونکہ نواز لیگ کی جانب سے ان کیخلاف قومی اسمبلی میں جمع کرائے جانے والے ریفرنس کو اسپیکر نے منظور کر لیا اور اسے الیکشن کمیشن بھجوا دیا۔ عمران خان کے قانونی مشیروں نے انہیں بتا دیا ہے کہ یہ ریفرنس ان کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتا دیا ہے کہ یہ ریفرنس نہ صرف انہیں بلکہ ان کے ساتھی کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے فارغ کر سکتا ہے اور انہیں ہمیشہ کیلئے سیاست سے دستبردار کرا سکتا ہے۔ عمران خان نے اپنے ساتھیوں کو بتایا ہے کہ عدلیہ حکم امتناع جاری کر کے ان کی مدد کر سکتی ہے لیکن قانونی و آئینی ماہرین نے اس طرح کے تاثر کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ عدلیہ کسی سیاسی جماعت کے اس طرح کے اقدام میں ان کی مدد نہیں کرے گی۔
تازہ ترین