• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ جنگ میں مورخہ 17اکتوبر کو شائع ہونے والے ایک معزز کالم نگار نے اپنے کالم "بعنوان بےقاعدگیوں کی ایک جھلک" کی تردید کر تے ہو ئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے محکمے نے کہا ہے کہ گزشتہ برسوں کی نسبت ایکسٹرنل آڈٹ کی کارکردگی میں شاندار بہتری آئی ہے۔ محترم کالم نگار نے لکھا ہے کہ چند وزارتوں اور ڈویثرنوں کے معاملات چھپانے کے لئے اس بار تمام آڈٹ رپورٹس کے بجائے محض چند ہی آڈٹ رپورٹس اسمبلی میں پیش کی گئی ہیں جبکہ یہ بات حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ آڈیٹر جنرل کے محکمے کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایکسٹرنل آڈٹ میں معیار اور مقدار دونوں لحاظ سے بہتری آئی ہے۔ یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ سال 2014-15ء کیلئے آڈیٹر جنرل کا محکمہ 20 سے زائد سپیشل آڈٹ کر رہا ہے جس میں کارکردگی آڈٹ اور خصوصی جائزہ شامل ہیں جبکہ اتھارٹی آڈٹ پر عمل درآمد و سرٹیفیکیشن کے 24 کیسز اس کے علاوہ ہیں۔ سپیشل آڈٹ کی رپورٹس کی تیاری حتمی مراحل میں ہے اور جونہی یہ رپورٹس مکمل ہوں گی پارلیمنٹ کو پیش کر دی جائیں گی۔ یہ تاثر بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ مالی سال 2014-15ء کی آڈٹ رپورٹس کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ آڈٹ کی کارکردگی رپورٹس کی تعداد سے نہیں جانچی جاتی بلکہ آڈٹ کے ذریعے سامنے آنے وا لی غبن کی گئی رقوم کی وصولی اہم پیمانہ ہوتا ہے لہٰذا یہ فرض کر لینا کہ آڈٹ پیروں اور رپورٹس میں کمی آنے سے آڈٹ کی کارکردگی کم ہوئی ہے، بالکل غلط ہے۔ اس کے برعکس حکومتی اخراجات پر نگرانی اور آڈٹ کے ذریعہ وصولیاں بہتر اور موثر ہوئی ہیں اور یہ سطح گزشتہ برسوں کی نسبت بلند اور دوگنا سے بھی زائد ہے۔ آڈٹ میں بہتری کی وجہ سے نہ صرف وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اداروں کے اندر بہتر مالی نظم و ضبط اور غیر ضروری اخراجات میں کمی میں مدد ملی ہے۔ بہتر آڈٹ نہ صرف کارکردگی بلکہ احتساب اور شفافیت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کے نتیجہ میں مالی سال 2015-16ء میں وصولیوں کا تناسب آڈٹ پر ایک روپیہ خرچ کے مقابلہ میں 28.1 روپے وصولی رہا جو کہ مالی سال 2014-15ء کے دوران ایک روپے کے بدلے میں 12 روپے وصولی تھا جو دوگنا سے زائد ہے اور 2015-16ء میں محکموں اور وزارتوں کے غیر ضروری اخراجات اور بے ضابطگیوں کی نگرانی کرتے ہوئے 81 ارب روپے وصول کئے جبکہ یہ مقدار 2014-15ء میں 40 ارب روپے تھی۔ وصولیوں کے تناسب میں اس عرصہ میں 100 فیصد اضافہ رہا۔ یہ سب آڈیٹر جنرل آف پاکستان رانا اسد امین کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ذریعہ آڈٹ ریفارم کمیٹی کے اغراض و مقاصد پر عمل درآمد سے ہی ممکن ہوا ہے۔ ان ریفارمز میں افرادی قوت کی استعداد کار میں اضافہ، پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور امور کی موثر نگرانی اور مربوط حکمت عملی شامل ہیں۔ پاکستان آڈٹ ڈیپارٹمنٹ مکمل طورپر خود مختار اور پیشہ وارانہ صلاحیت کا حامل ادارہ ہے وا ضح رہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان آئین کی رو سے ایک مقررہ مدت کیلئے تعینات ہوتے ہیں اور انہیں صدر مملکت کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے۔ آڈٹ میں اصلاحات کی نگرانی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کر رہی ہے جو سینئر اور پیشہ ور افراد پر مشتمل ہے۔ آڈٹ کا محکمہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے پرعزم ہے اور اس کی حتی الوسع کوشش ہے کہ احتسابی عمل پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے اور پارلیمنٹ کو موثر رپورٹس پیش کی جائیں تاکہ احتسابی عمل مزید شفاف اور بہتر ہو سکے۔ جناب آڈیٹر جنرل نے اسپیشل آڈٹ کے لئے تما م دفاتر کو پچیس سے تیس فیصد وسائل مختص کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مالی سال 2013 سے التوا میں پڑی ہوئی چارسو اسی ارب کے گردشی قرضوں کے متعلق اسپیشل آڈٹ رپورٹ کی تکمیل اور پارلیمنٹ کے سامنے 2015 میں پیش کرنا آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد ہی ممکن ہو سکا جوان کا موثر احتسابی عمل پر یقین اور عمل درآمد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سابقہ روایات کے مطابق اسپیشل آڈٹ رپورٹس کو بھی سالانہ آڈٹ رپورٹس کے ساتھ پارلیمنٹ کے سا منے پیش کیا جا تا تھا جبکہ موجودہ آڈیٹر جنرل کی کاوشوں سے یہ فیصلہ ہو ا ہے کہ اسپیشل آڈٹ رپو رٹس جیسے ہی مکمل ہوں گی صدرِ مملکت اور پارلیمنٹ کو پیش کر دی جا ئیں گی۔ تاکہ پبلک اکائونٹس کمیٹی جب چاہے مذکورہ رپورٹس کو زیرِ بحث لا ئے اور آڈٹ کے ذریعے احتسابی عمل میںتیزی اور بہتر ی کے اصل مقاصد کو حاصل کیا جا سکے جو اس محکمے میں قومی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ آڈیٹر جنرل کے محکمے کے ترجمان سے یہ جان لینا چاہئے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔


.
تازہ ترین