• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایک بار پھر قطر میں مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔ ایک برطانوی اخبار کے مطابق اب تک مذاکرات کے دو دور قطر کے دارالحکومت میں ہوچکے ہیں۔ اخبار نے انہیں خفیہ مذاکرات قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ پہلا دور ستمبر اور دوسرا اکتوبر میں ہوا ہے۔ان مذاکرات میں امریکہ کا ایک نمائندہ شریک تھا جبکہ پاکستان کاکوئی نمائندہ میٹنگ میں موجود نہیں تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ طالبان کی جانب سے جو نمائندہ افراد شریک ہوئے ان میں ملا عمر کے بھائی ملا عبدالمنان بھی شامل تھے اور افغان حکومت کی جانب سے مذاکرات میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ اور ان کے وفد نے شرکت کی۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات انتہائی خوش آئند بات ہے۔ پاکستان ا فغانستان کا برادر پڑوسی ملک ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش اور خواہش ہی نہیں رہی کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت ہوسکے بلکہ وہ اس مقصد کے لیے ہونے والی تمام سرگرمیوں میں پوری طرح شریک بھی رہا ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مری میں مذاکرات ہوئے تھے جس کی مہمان نوازی پاکستان نے کی ۔ اس میٹنگ میں امریکہ اور پاکستان کے نمائندے شریک تھے۔ اس کے بعد اس میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔پاکستان کی جانب سے افغان حکومت اورطالبان کے امن مذاکرات میں عوامی جمہوریہ چین کو بھی شامل کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاکہ انہیں پائیدار اور نتیجہ خیز بنایا جاسکے۔ یہ درست ہے کہ افغان تنازع میں حکومت اور طالبان ہی فریق ہیں اور ان ہی کو فیصلہ کرنے کا حق ہے لیکن تحریک طالبان بہرحال پاکستان میں بھی موجود ہے اور افواج پاکستان ان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں لہٰذاپاکستان کو بھی ان مذاکرات میں شامل کیا جانا چاہئے تاکہ افغانستان اور پاکستان سمیت پورے خطے سے دہشت گردی کا مؤثر طور پر مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔

.
تازہ ترین