• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کہانی تو یہ سنانی تھی کہ کیسے ممبئی حملوں کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ ہالبروک اس ایک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ دہلی سے اسلام آباد پہنچے کہ چونکہ قصور سارا پاکستان کا ، لہٰذا بھارتی غم وغصہ کم کرنے کا اب واحد طریقہ یہ کہ بھارت سرجیکل اسٹرائیک کرے اور پاکستان Reactنہ کرے، کیسے ہالبروک کی کافی کے کپ ختم ہونے سے پہلے ہی اعلیٰ ترین آئینی عہدیدار نہ صرف خود مان گئے بلکہ اُسی شام اُنہوں نے منتخب چیف ایگزیکٹو کو بھی ہمنوا بنا لیا اور پھر ملکی خودمختاری کا جنازہ نکلنے سے ذرا پہلے حتمی میٹنگ میں کیسے اچانک ایک ’’صاحبِ اختیار‘‘ نے غصے میں آکر جب اپنی 10منٹ کی جذباتی تقریر یہ کہہ کر ختم کی کہ ’’ یہ میرا اور 20کروڑاُن آزاد لوگوں کا خود مختار ملک جو اپنے وطن کیلئے جان دینے اور جان لینے کیلئے تیار، لہٰذا اگر ایسا کچھ ہوا تو میری اور 20کروڑ لاشوں پر ہوگا ‘‘ تو یہ سن کر نہ صرف ہالبروک اور امریکی سفیر غصے میں پاؤں پٹختے میٹنگ روم سے نکلے بلکہ اگلے ہی لمحے دو بڑے بھی بُرا سا منہ بنا کرچلتے بنے ۔
آج قصہ تو یہ بیان کرنا تھا کہ وہ صاحب جو وقفے وقفے سے پچھلے 20سال سے اقتدار میں ، جو دنیا بھر میں پاکستان کے ترجمان ، جن کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور جن کا ایک ہی خواب کہ دنیا کا ہر شخص پاکستان میں سرمایہ کاری کرے، اسی بڑے صاحب کے بیٹے سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں جب شہزادے سے میں یہ پوچھ بیٹھا کہ ’’ آپ کا کئی ممالک میں کاروبار مگر پاکستان میں ایک دھیلے کی سرمایہ کاری نہیں۔۔ کیوں؟‘‘ تومدھم روشنی میں سگار کے ساتھ مغربی موسیقی انجوائے کرتا شہزادہ بڑے اطمینان سے بولا’’ بابا نے پاکستان میں سرمایہ کاری سے منع کر رکھا ہے ‘‘۔
آج بتانا تو یہ تھا کہ اُس وقت جب پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ایسے عروج پر کہ5ماہ میںجتنے منصوبے یہاں لانچ اور جتنی خریدوفروخت اِدھر ہوئی اتنا کچھ تو کسی خلیجی ملک میں ایک سال میں بھی نہ ہوا ، تب کس غیر ملکی شخصیت کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا، اس شخصیت نے اپنا جہاز بھجوا کر پاکستان کے کس بڑے کو اپنے پاس بلایا ، اس ون ٹوون میٹنگ میں کیا گفتگو اور کیا ڈیل ہوئی ، اس ڈیل سے فائدہ کس کس کو ہوا اور اچانک پراپرٹی ٹیکس لگنے پر یہاں سے واپس گئے سرمائے سے کس ملک کی کریش ہوتی مارکیٹ سنبھلی اور پاکستانی معیشت کو کتنا نقصان پہنچا۔
آج سنانا تو یہ تھا کہ چند دن پہلے وزیراعظم کی زیرِ صدارت 5بڑوں کی میٹنگ میں کیا ڈسکس ہوا ، جہادی تنظیموں پر سول قیادت کا مؤقف کیا تھا، ملٹری والوں نے جواباً کیا کہا، میٹنگ ختم ہوئی تو کون سے دو اہم عہدیدار سر جوڑ کر بیٹھے، ایک خاتون کی انٹری کیسے ہوئی ، کس نے کس کو بریفنگ دی ، کن سے رابطے کئے گئے ، کس نے معذرت اور کس نے کن شرائط پر حامی بھری ، خبر لگنے سے پہلے کس کی کس کے ساتھ 2گھنٹے کی بیٹھک ہوئی اور اس تمام Activityکا مقصد ذاتی انا ، عناد یا کچھ اور ،پھر سب کچھ بے نقاب ہونے کے بعد بھی اصل قصور وار کو چھوڑ کر قربانی کے بکرے کی تلاش کیوں ، اور وہ کونسے عوامل کہ جن کی وجہ سے یہ خبر اتنی اہم ہوئی ۔
آج دل تویہ کر رہا تھا کہ بتاؤں کہ اسحق ڈار کو ایشیاء کا بہترین وزیرِ خزانہ قرار دینے کی اصل کہانی کیا ، یہ ’’ایمرجنگ مارکیٹس ‘‘ نامی اخبار کس کا ، آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر نے تردید اور آئی ایم ایف کے ترجمان نے مبارکباد کیوں دی اور یہ سب کرنے کا مقصد کیا تھا ؟ اور آج من تو یہ کر رہا تھا کہ سناؤں کہ ان لمحوں میں جب اچھا وقت، ایم کیو ایم اور کراچی الطاف حسین کی مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتے ہوئے ، تب وہ کونسی طاقتیں جنہوں نے منی لانڈرنگ کیس سے بری کر کے الطاف حسین کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی اور کون پسِ پردہ الطاف حسین کو طاقت کے انجکشن لگا رہا۔ جی ہاں دوستو آج باتیں تو یہ کرنا تھیں مگر پھر جب خبر کے کھوجی اور خبر کی خاطر خود کی بھی نہ سننے والے پیدائشی خبری اپنے رؤف کلاسرا نے یہ خبر بریک کر دی کہ ایشیاء کے نمبرون وزیرِ خزانہ اسحق ڈار قرضہ لے کر نہ صرف موٹرویز اور کراچی ائیر پورٹ گروی رکھ چکے بلکہ مزید قرضے کیلئے وہ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی عمارتیں گروی رکھنے کی تیاریوں میں ،تو میری ساری ترتیب ہی الٹ پلٹ ہوئی ، گو کہ مجھ جیسے نالائق کیلئے یہ حیرانگی کی بات کہ ایک طرف خزانہ بھرا ہوا اور دوسری طرف قرضے کیلئے عمارتیں گروی رکھی جارہیں مگر یقین جانئے یہ سب جان کر رتی بھر بھی دُکھ نہیں ہوا کیونکہ جہاں غیر ملکی دوروں کے ورلڈ ریکارڈ کی طرف بڑھتے بڑے صاحب ہر قانون سے بالاتر ہوں ، جہاں شاہی گھروں پر 7ارب خرچ ہو جائیں،جہاں 21ہزارکیسز میں کسی ایک بڑے کو بھی سزا نہ ملے اور جہاں الف سے ی تک سب ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ ہو وہاں یہ نہیں ہوگا تواور کیا ہوگا اور مجھے اس بات پر بھی کوئی غم نہیں کہ اپنے افلاطونوں نے اربوں کھربوں کی 61عمارتوں کی قیمت صرف 72کروڑ لگائی،کیونکہ جہاں 90فیصد ادارے خسارے کی فیکٹریاں بن جائیں ، جہاں نیلم جہلم پروجیکٹ 26سالوں میں 34ارب سے 418ارب تک جا پہنچے ، جہاں 12ارب کی کرپشن روزانہ ہو، جہاں غریب اپنے 5مرلوں کا ہر محکمے کو حساب دے جبکہ امیروں کی کرپشن پر ٹی اوآرز ہی نہ بن پائیں ، جہاں ٹھیکے پر سری لنکا سے 3طیارے منگوا کر کروڑوں روپے ڈھول پیٹنے پر لگا دیئے جائیں اور جہاں اپنے ہم وطنوں کی ایمانداری کا عالم یہ ہو کہ صرف ایک عرب ملک میں نامعلوم پاکستانیوں کے ساڑھے 6ارب ڈالر پڑے ہوئے وہاں کیا دُکھ اور کیا غم اور مجھے رؤف بھائی کی اس تشویش کہ’’ قرضہ لینے کیلئے ایکدن ہمیں ایٹمی صلاحیت بھی گروی رکھنا پڑ جائیگی‘‘ پر اس لئے کوئی تشویش نہیں کہ ابھی ہمارے پاس ایوانِ صدر ،وزیرِاعظم ہاؤس ،وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی عمارتیں،وزراء اعلیٰ او رگورنر ہاوسزسمیت سینکڑوں سرکاری محکموں کی ہزاروں عمارتیں موجود اور تو اورہماری جیب میں مینارِ پاکستان،علامہ اقبال او رقائدِاعظم کا مزار بھی ، لہذا اگر موجودہ رفتار سے بھی یہ ’’گروی پروگرام ‘‘ جاری رہا تو بھی 20پچیس سال تک یہ لین دین تو چلے گا،ہاں البتہ دل اس منافقت پر ضرور رنجیدہ کہ ابھی کل جب ’’پینڈو دھرنے باز‘‘ پھینٹی لگاتی پولیس او ر اوسان خطا کرتی آنسو گیس سے بچتے بچاتے پارلیمنٹ کا جنگلہ توڑ بیٹھے اورجب دو ڈھائی درجن نیم خواندہ افراد پی ٹی وی میںجا گھسے تب جو جمہوریت خطرے میں پڑی تھی اور تب جن جمہوریت پسندوں کے سر شرم سے جھکے تھے وہ جمہوریت اور جمہوریت پسند آج کراچی ائیر پورٹ اور موٹرویز کو گروی رکھوا کراور ریڈیو اور ٹی وی کی عمارتوں کو گروی رکھواتے خاموش کیوں ؟ اور پھر یہ سوچ سوچ کر بھی میں پریشان کہ جب کسی 14اگست کو گروی زدہ قائد کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر گروی زدہ ٹی وی پر ’’ ہم زندہ قوم ہیں ‘‘ دیکھتے اور گروی زدہ ریڈیو سے ’’ ایہہ پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے ‘‘ سنتے اپنے جمہوری چمپیئن جب جمہوریت کی بانہوں میں بانہیں ڈالے جھوم رہے ہوں گے تب وہ جوزف یا وہ ڈیوڈ جس کے پاس یہ سب گروی پڑاہوگا، وہ بیچارا تو ہنس ہنس کر پاگل ہی ہو جائے گا ۔

.
تازہ ترین