• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سابق بھارتی وزیر سردار بوٹا سنگھ ایک سرکاری عشائیے میں ،جس میں سیکورٹی کے انتظامات غیر معمولی تھے، شرکت کے لئے گئے تو دروازے پر انہیں روک کر دعوت نامہ دکھانے کے لئے کہا گیا۔ بوٹا سنگھ نے کہا کہ وہ دعوت نامہ تو گھر بھول آئے ہیں۔ اس پر سیکورٹی والوں نے کہا کہ وہ اپنا شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس دکھائیں تاکہ ان کی پہچان ہو سکے۔ بوٹا سنگھ نے جھنجھلا کر جواب دیا ’’وہ میرے پاس نہیں ہے مگر ساری دنیا جانتی ہے میں وزیرہوں، مجھے پہچان کرانے کی کیا ضرورت ہے ! سیکورٹی والے نے ادب سے کہا ’’سر آپ صحیح کہتے ہوں گے مگر اس کے باوجود شناخت ضروری ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے روی شنگر آئے تھے ان کے پاس بھی روی شنگر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تھا ۔ میرے پاس ستار پڑا تھا، میں نے کہا کہ اگر آپ روی شنکر ہیں تو اس پر کوئی دھن بجائیں۔ انہوں نے فوراً ستار پکڑا اور اس پر ایک خوبصورت دھن سنائی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ روی شنکر ہیں چنانچہ میں نے انہیں اندر جانے دیا۔ ان کے بعد لتا منگیشکر آئیں ان کا معاملہ بھی یہی تھا۔ انہوں نے مجھے اپنا ایک گیت سنایا میں نے انہیں بھی اندر جانے دیا اس طرح آپ کو بھی اپنے سردار بوٹا سنگھ ہونے کا کوئی ثبوت پیش کرنا پڑے گا!!
یہ سن کر سردار بوٹا سنگھ نے سیکورٹی والے کو مخاطب کیا اور حیرت سے پوچھا ’’یہ روی سنگر اور لتا منگیشکر کون ہیں ؟‘‘ اس پر سیکورٹی والے نے سردار جی کو رستہ دیتے ہوئے کہا ’’ آپ کے سردار بوٹا سنگھ ہونے کےلئے یہ ثبوت کافی ہے، آپ اندر جا سکتےہیں۔‘‘
گزشتہ روز ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے جو ایک کالج میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں اور ان دنوں اس مضمون میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں کہنے لگے پی ایچ ڈی خاصا مشکل کام ہے ، مجھ سے ہو جائے گا؟ میںنے عرض کیا کہ اس سلسلے میں، میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اس کے بعد وہ ملکی حالات پر ایک اچھے پاکستانی کی طرح گرنبل کرنے لگے اور ملک کے مستقبل کے بارے میں ایسی پیشن گوئیوں پر اتر آئے جن کا خیال ذہن میں آنے پر لاحول ولاقوۃ اور زبان پر لانے سے پہلے دس دفعہ خدانخواستہ کہنا چاہئے۔ میں نے انہیں اس نوع کی پیش گوئیوں سے روکا اور کہا ’’اس طرح کی باتیں کرنے کی بجائے آپ ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ گزشتہ 53برس میں ہمارے ہاں جمہوری عمل میں مسلسل رکاوٹ ڈالی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے ترقیاتی کام تعطل کا شکار ہوئے نیز قومی اور بین الاقوامی سطح پر پیچیدگیاں پیدا ہوئیں‘‘ یہ سن کر پروفیسر صاحب نے حیرت سے پوچھا ‘‘ یہ جمہوریت کیا ہوتی ہے ’’ میں نے کہا ‘‘ پتہ نہیں لیکن آپ کا سوال اس ثبوت کے لئے کافی ہے کہ آپ پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کر لیں گے ، اب آپ اس سلسلے میں پریشان ہونا چھوڑ دیں۔‘‘
ایک صاحب سے میری پرانی نیاز مندی ہے ۔ ایک دن پاکستان میں اسلام کے مستقبل کے حوالے سے بہت پریشان نظر آئے ان کا کہنا تھا کہ ’’نئی نسل اسلام سے دور ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ نوجوانوں کو طہارت اور پاکیزگی کے اسلامی طریقوں کا علم نہیں، ٹی وی پر فحاشی بھی بہت بڑھ گئی ہے،عورتیں کھلے چہروں کے ساتھ گھر سے باہر نکلتی ہیں، مردوں کے چہرے داڑھی سے بے نیاز ہیں ، وہ پتلونیں پہن کر پھرتے ہیں، اخباروں میں عورتوں اور خوبصورت لڑکوں کی تصویریں شائع ہوتی ہیں غرضیکہ ہر طرف بے حیائی کا دور دورہ ہے ۔’’میں نے پوچھا ‘‘ بیروزگاری ، غربت، افلاس، استحصال، لاقانونیت، عدم تحفظ، تذلیل انسانیت ایسی چیزوں سے اسلام کو زیادہ خطرہ ہے یا ان مسائل کی وجہ سے جو آپ نے بیان کئے ہیں۔’’کہنے لگے ‘‘ ان چیزوں کا وجود بھی ایک اسلامی ملک میں ٹھیک نہیں، لیکن اگر ہم اپنی شکلیں مسلمانوں والی بنالیں تو انشاءاللہ باقی مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔ ’’اس پر میں نے عرض کی ’’میں پاکستان میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے مایوس نہیں لیکن اگر آپ کی سوچ یہی ہے کہ باطن کی بجائے ظاہر پر توجہ دی جائے تو پھر یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مایوسی کا جواز موجود ہے ۔ میں پاکستان میں اسلام کے مستقبل کے حوالے سے آپ سے اتفاق کرتا ہوں ۔‘‘
پاکستان میں ایسے بہت سے سردار بوٹا سنگھ ہیں جو اپنی شناخت اپنی اسی قسم کی باتوں سے کراتے ہیں ۔ بہت دنوں کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان سے کسی بحث میں الجھنا نہیں چاہئے بلکہ یہ جس دروازے سے گزرنا چاہیں انہیں گزرنے دیں، انہیں روکنے کا کوئی فائدہ نہیں!


.
تازہ ترین