• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔مسلم لیگ ن کے قائد کا بلامقابلہ صدر منتخب ہونا کوئی پہلی بار نہیں تھا۔اس سے قبل بھی نوازشریف کے مقابلے میں کبھی کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا۔اگر کوئی امیدوار سامنے آتا بھی تو شاید نوازشریف کے مقابلے میں چند درجن سے زائد ووٹ نہ لے سکتا۔لیکن جمہوریت کا حسن اور نظام کی خوبصورتی کا تقاضا ہے کہ پارٹی بانی کے مقابلے میں بھی امیدواروں کاکھڑا ہونا چائیے۔وگرنہ حالیہ صورتحال دیکھ کر جمہوری جماعت میں آمریت کا گمان ہوتا ہے۔پارٹی کا جو بھی عہدیداروزیراعظم نوازشریف کے مقابلے میں بطور صدر کا الیکشن لڑے،ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ نوازشریف کے لئیے مشکل پیدا کرسکے۔نوازشریف مسلم لیگ ن میں ایک حقیت ناقابل تردید ہیں۔پارٹی میں تمام عہدوں پر اختلاف ہوسکتا ہے مگر نوازشریف کی راہبری پر کوئی بحث نہیں ہے۔لیکن جب آپ پارٹی انتخابات میں بلامقابلہ منتخب ہوتے ہیں تو بغیر کسی وجہ کے انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ہونا تو یہ چائیے کہ جو شخص آپکے مقابلے میں کاغذات جمع کرائے،اسے گرمجوشی سے خوش آمدید کہہ کر انتخابی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیںنہ کہ اس کے کاغذات اعتراض لگا کر مسترد کردئیے جائیں۔اس سارے مرحلے میں کوئی اور مضبوط نہیں ہوگا بلکہ پارٹی پر آپکی گرفت سب کے سامنے آئے گی۔یہ صرف مسلم لیگ ن کی بات نہیں ہے بلکہ بدقسمتی ہے کہ پیپلزپارٹی سے لے کر تحریک انصاف تک تمام جماعتوں میں یہی صورتحال ہے۔جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جہاں پر امیر کا انتخاب باقاعدہ انتخابی پراسس سے ہوتا ہے۔امیدوار سامنے آتے ہیں اور اراکین جماعت ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔جس کے بعد منتخب ہونے والا امیر بہت مضبوط اور بااختیار ہوتا ہے۔جماعت کے الیکشن میں بھی مرکزی شوریٰ کے سینئر ترین اراکین تمام معاملات پہلے ہی خوش اسلوبی سے طے کرلیتے ہیں لیکن کم از کم عوام کو دکھانے کے لئے کوئی نہ کوئی پراسس تو ضرور کیا جاتا ہے۔آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اگر ہم ملک میں جمہوریت کو قائم اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلی اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو نافذ کرنا ہوگا۔یہ صرف مسلم لیگ ن کے لئے نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف،پیپلزپارٹی سمیت تمام جماعتوں کو اس پر سوچنا ہوگا۔وگرنہ عوام میں سٹیٹس کو کی مخالفت بڑھتی چلی جائے گی اور تمام بالا سیاسی جماعتوں کے قائدین مضبوط نہیں بلکہ کمزور تر ہوتے چلے جائیں گے۔
حکم یہ نشر کرادو عدم کہ آئندہ
عوام تن کر چلیں جھک کر شہریار چلے
وزیراعظم نوازشریف صدر منتخب ہوکر پارٹی کی جنرل کونسل سے خطاب میں اپنے مخالفین پر خوب برسے۔ایک عرصے بعد مسلم لیگ ن کے صدر کا روایتی انداز تھا۔تحریک انصاف سمیت دیگر مخالفین کو ڈگڈی سے تشبیہ دینے والے نوازشریف کا لہجے سے لگ رہا تھا کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ا س کی کیا وجوہات ہیں،خدا بہتر جانتا ہے مگر تناؤ کی کیفیت نظر آرہی ہے۔قومی سلامتی کی متنازعہ خبر کے بعد جو طوفان کھڑا ہوا تھا۔اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔دو روز قبل تمام قومی اخبارات میں چھپنے والی خبر حالات کی سنگینی بیان کرنے کے لئیے کافی ہے۔چھپنے والی خبر کی سرخی کچھ یوں ہے کہ ’’آرمی چیف نے وزیراعظم کو متنازع خبر پر کورکمانڈر کی تشویش سے آگاہ کردیا‘‘بظاہر یہ محض ایک خبر کی سرخی ہے مگر اس کی گہرائی میں بہت کچھ پنہاں ہے۔گزشتہ تین سال میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ عسکری قیادت نے باقاعدہ بیان جاری کرکے کسی بھی معاملے پر شدید سنجیدگی کا اظہا ر کیا ہو۔دھرنا سیاست سے لے کر آج تک تمام بدلتے حالات میں کوئی ایک فریق یا چند افسران کو گروپ تو آپکے حوالے سے متحرک رہا مگر ایسا پہلی بار ہے کہ فوج کے تمام کورکمانڈرز کی تشویش سے وزیراعظم کو آرمی چیف نے باضابطہ آگاہ کیا ہے۔سیاست اور تاریخ کے طالبعلم ہونے کے ناطے میرے لئے یہ کوئی معمولی پیغام نہیں ہے۔وزیراعظم نوازشریف کو اس معاملے میں آگ کو جلد بجھانا ہوگا۔معاملے کو طول دینا اور حکمت سے کام لینا آگ کو ہوا دینے کے مترادف ہوگا۔متنازع خبر کا معاملہ سیاست نہیں بلکہ ایکشن لینے کا مطالبہ کررہا ہے۔میر ی اطلاعات کے مطابق عسکری و سیاسی حکومت نے معاملے کی مکمل تحقیقات کرالی ہیں۔وزیرداخلہ اور سویلین حساس ادارہ وزیراعظم نوازشریف کو دو روز قبل اس سیاسی ساتھی کے نام سے آگاہ کرچکا ہے۔شایداپنے کسی بہت ہی خاص ساتھی کو سزا دینا مشکل اور آزمائشی فیصلہ ہوگا۔مگر سسٹم ہمیشہ فرد سے بالاتر ہوتے ہیں۔تادم تحریر ذمہ دار کو سزا دینے کا فیصلہ نہیں ہوا مگر قوی امکان ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں حالات سب کے سامنے ہوں گے۔
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
اقتدار میں ہمیشہ قریبی مشیران غلط مشورے دیتے ہیں۔مدبر حکمران وہی ہوتا ہے جو معروضی حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرے۔وگرنہ قریبی افسران اور وزیر تو سب اچھے کی اطلاعات دیتے ہیں۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے اور کبھی بھی سب اچھا نہیں ہوتا۔آج بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔متنازع خبر کے ذمہ دار کو سزا ہی حالیہ تناؤ کو کم کرسکتی ہے۔جناب وزیراعظم! اس معاملے پر پورا ادارہ ایک پیج پر ہے۔ماضی میں جو عسکری افسران آپکے حامی تھے۔اس معاملے پر وہ بھی اپنے ادارے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ذمہ دار کے خلاف کاروائی کرنے میں تاخیر آپکی مشکلات بڑھا سکتی ہے۔ آپ کے حامی افسران بھی اپنے ادارے کے لئے آپکے مخالف ہوسکتے ہیں۔بہتر ہوگا کہ معاملات کا مزید طول دینے کے بجائے حل کی طرف دھکیلا جائے اور اس پیارے کو بلا کر خود ہی سائیڈ پر ہونے کا کہہ دیں۔معاملے میں کسی سے زیادتی کرنا مناسب نہیں ہوگا مگر ذمہ دار کو بچانا یا اس کی ڈھال بننا بھی آگ سے کھیلنے والی بات ہے۔کچھ لوگ اس معاملے کو آپکی حکومت کے میمو گیٹ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ایک مؤثر رائے ہے کہ یہ بھی میمو گیٹ کی طرح بیٹھ جائے گا۔مگر وزیراعظم صاحب ! میمو گیٹ بیشک بیٹھ گیا تھا مگر ختم کئی سالوں تک نہیں ہوا تھا۔میمو گیٹ کے بعد ہی تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھری گئی تھی۔میمو گیٹ کا خمیازہ ہی پیپلز پارٹی کو بہت بڑے بڑے نقصانات کی صورت میں اٹھانا پڑا۔لہٰذا موجودہ حالات آپ سے تقاضا کرتے ہیں کہ اصولی موقف اختیار کرکے ذمہ دار کو سزا دیں۔تاکہ یہ معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوجائے وگرنہ اس معاملے کے اثرات بہت خطرناک ہوں گے۔


.
تازہ ترین