• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دیکھے جانے یا نگرانی میں رہنے کے الگ الگ مطلب ہیں۔ کبھی انسان نگرانی کو اپنی آزادی سے متصادم قرار دے کر اسے دخل اندازی قرار دیتا ہے اور کبھی ایک عجیب سی الجھن اسے گھیرے رہتی ہے لیکن خوف کا عنصر سب سے توانا ہے۔ دیکھے جانے کی وجہ سے کچھ کو خوف لاحق ہوتا ہے اور کچھ کا خوف جاتا رہتا ہے۔ پنجاب سرکار نے لاہور شہر میں گلی گلی، موڑ موڑ اور دوراہوں پر وہ آنکھیں نصب کر دی ہیں جو روشنی اور اندھیرے سب میں دیکھنے پر قادر ہیں اس لئے پکڑے جانے کے خوف میں مبتلا لوگ پریشان ہیں جب کہ دکھائی دینے والے مطمئن۔ ظاہر ہے جرائم پیشہ اور منفی ذہنیت کے حامل افراد اس کڑی نگرانی کے عمل میں اپنی سرگرمیاں ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور انہیں ایک اچھا شہری بن کر زندگی گزارنا پڑے گی جب کہ چھینا جھپٹی، چوری چکاری اور دنگے فساد سے خوفزدہ لوگ پوری آزادی اور دلی اطمینان کے ساتھ باہر نکلیں گے۔ ہر لمحہ انہیں ایک سہارے، ایک رہنما، ایک چھت، ایک مہربان سائے کا ساتھ محسوس ہو گا۔ کہیں دور بیٹھا ہوا کوئی شخص کیمرے کی وساطت سے ان کے ہمراہ ہوگا۔ پنجاب سرکار نے لاہور سمیت پنجاب کے تمام شہروں میں کیمرے نصب کرنے کا فیصلہ کر کے عوام کی جان و مال کے تحفظ کی طرف مثبت پیش قدمی کی ہے اور محرم الحرام کے دوران امن و امان کی مثالی صورت حال شاباش کی مستحق ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا بلکہ لاہور کے مختلف گلی محلوں، چوکوں اور بازاروں میں نصب کیمروں کی وساطت سےوہاں کی نقل و حمل کو دکھایا گیا۔ اس اہم منصوبے کی تکمیل میں آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کی کاوشوں کا بہت دخل ہے۔ انہوں نے پنجاب سرکار کے اس بڑے منصوبے کو بھرپور جانفشانی اور نیک نیتی سے مکمل کر کے یہ ثابت کیا کہ پنجاب پولیس کمٹمنٹ اور عمل پر یقین رکھتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ یہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا جب کہ دنیا کے چند بڑے منصوبوں میں ایک ایسا منصوبہ ہے جو دنیا میں امانت اور دیانت کے حوالے سے پاکستان کی پہچان بنے گا۔ چھ سال قبل اسلام آباد میں 1500 کیمرے لگائے گئے جس پر بارہ ارب لاگت آئی تھی جب کہ لاہور میں آٹھ ہزار کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ یوں یہ چار گنا بڑا منصوبہ ہے جب کہ لاگت میں کچھ خاص فرق نہیں حالانکہ چھ سال کے دوران اشیاء کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے خود پر بھی ایک کیمرہ نصب کر رکھا ہے جو آپ اپنے احتساب کے مترادف ہے۔ اگلے سال راولپنڈی، سرگودھا، ملتان، بہاولپور، فیصل آباد، گوجرانوالہ میں بھی کیمرے نصب کر دیئے جائیں گے۔
میرا خیال ہے کہ یہ وقت کی ضرورت تھی اور بہت عرصے سے تجزیہ نگار اور عام شہری کسی ایسے دن کا خواب دیکھ رہے تھے جب معاشرے میں بدامنی پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھنے کا کوئی مستقل بندوبست ہو۔ ترقی یافتہ ملکوں میں آپ کو پولیس سڑکوں پر نظر نہیں آتی مگر جگہ جگہ کیمرے نصب ہونے کی وجہ سے وہ مسلسل نگرانی کا فریضہ سرانجام دیتی رہتی ہے اور جہاں کہیں کوئی حادثہ یا واقعہ رونما ہو تین منٹ سے پہلے پہنچ جاتی ہے۔ یقینا اس کے باعث ہماری پولیس کے لئے بھی بہت سی آسانیاں ہوں گی اور وارداتیوں تک پہنچنے کے لئے راستے ہموار ہوں گے، پولیس کے وقار میں اضافہ ہو گا اور عام شہریوں کا مورال بلند ہو گا۔ کیوں کہ پولیس پر بھی نگرانی ہو رہی ہو گی اس لئے وہ بھی محتاط رہیں گے اور پارکوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے نکاح نامے طلب کر کے ان کی تضحیک نہیں کریں گے، کئی بار یونیورسٹی کے طلباء و طالبات اس حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ انہیں تعلیمی حوالے سے منعقدہ بحث و مباحثہ سے اٹھا کر فضول پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔بے جا کڑی پابندیاں بعض اوقات معاشروں کو زنگ آلود کر دیتی ہیں۔ دنیا ترقی کی کتنی منزلیں طے کر چکی ہم ابھی تک عورت مرد کے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو مکالمہ کرنے دیں اور انسانوں کی طرح زندگی گزارنے دیں۔ بہرحال جہاں پنجاب حکومت کے بہت سے نیک نام منصوبے قابلِ تحسین ہیں وہیں ایک پرائیویٹ ا سکول سسٹم نے پنجاب کی زبان کو غیر معیاری زبان کہہ کر پنجابیوں کی آن اور تشخص پر گہرا وار کیا ہے۔ حیرت ہے ہمارے پرائیویٹ اسکول اس قدر زبانِ غیر سے مغلوب ہو چکے ہیں کہ عوامی رنگ، کلچر، ادب، زبان اور عوام انہیں اچھے نہیں لگتے اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ اسی دیس میں جابسیں جس کا وہ پرچار کرتے ہیں۔ کسی اور ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی جہاں اپنی زبان اور کلچر کو کمتر سمجھا جائے جو کسی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ پورے پنجاب کا مطالبہ ہے کہ سرکار پنجاب کی ماں بولی کو تسلیم کیا جائے۔ باقی تمام صوبوں میں مادری زبانیں لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہیں جب کہ پنجاب کا معاملہ محض اس وجہ سے لٹکا ہوا ہے کہ پورے صوبے کے لوگ متفق نہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کیس کے معاملے میں تمام علاقوں کے ادیبوں، دانشوروں کے مشورے سے یہ رائے قائم ہو چکی ہے کہ مادری زبان کے رائج کرنے میں اختلافات دور کرنے کے لئے ہر ڈویژن کے لوگوں کو اپنی ماں بولی کے حوالے سے قاعدہ مرتب کرنے کا اختیار دیا جائے۔ ماں بولی صرف زبان نہیں زندگی گزارنے کا قاعدہ ہے۔ اگر پنجاب کے تمام صوفیاء تک طالب علموں کی رسائی ممکن بنا دی جائے تو کسی نیشنل ایکشن پروگرام کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ وہ بچپن سے رواداری اور انسانیت کے سنہری اصولوں سے رہنمائی لے کر آگے بڑھیں گے تو کوئی ان کی برین واشنگ نہیں کر سکے گا۔ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب گونگے پنجاب کو اس کی زبان لوٹا دیں تو تاریخ ان کے لئے سنہری حروف میں خراجِ تحسین رقم کرے گی۔ یاد رہے تاریخ اور ثقافت کے جھروکوں سے بھی کوئی دیکھ رہاہے۔
اپنا سکے اُسے نہ کبھی دل کی بات کی
یہ زندگانی ہم نے بسر جس کے ساتھ کی
لگتا ہے تیری آنکھ ہے میرے وجود میں
رکھتی ہے جو خبر مری ہر ایک بات کی



.
تازہ ترین