• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختونخوا میں ذہنی صحت کی بحالی ناگزیر ...خصوصی مراسلہ…آصف خان ترک

SMS: #KMC (space) message & send to 8001
خیبر پختونخوا حکومت ہر پلیٹ فارم پر شعبہ صحت میں اصلاحات لانے کا دعویٰ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ،تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ دہشت گردی سے شدیدمتاثر اس صوبے کے عوام کی ذہنی و نفسیاتی صحت میں بہتری اور بحالی اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔ صوبے میں مینٹل ہیلتھ ایکٹ ہے نہ ہی ذہنی و نفسیاتی طور پر بیمار افراد کی بحالی کے لئے کوئی خاص انتظام ہے۔ حکومت کی اس جانب عدم توجہ کی وجہ سے یہ صورتحال مزید خراب ہورہی ہے جو ایک قابل تشویش امر ہے ۔ اس وقت صوبے میں ڈپریشن یعنی ذہنی پریشانی کی شرح 33 فیصد ہے۔ تقریبا ہر چوتھا شخص کسی نہ کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہے۔ بم دھماکوں اور دہشت گردی کے دیگر واقعات سے متاثرہ افرادسمیت آرمی پبلک اسکول پشاورواقعے کے متاثرہ خاندانوں اور خصوصاًطلبہ میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈ( پی ٹی ایس ڈی) کی شرح بھی انتہائی زیادہ ہے۔ اسی طرح ہزاروں افراد خاص طور پر بزرگ افراد شائزو پرینیا یعنی بھولنے کی بیماری کے شکار ہیں۔ نفسیاتی پریشانیوں سے نجات پانے کے لئے صوبے میں کوئی موثر نظام نہ ہونے کے باعث کئی افرادمنشیات کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبے بھر میں منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میںآیا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے نوجوان آئس اور سوکھے بچھو بھی بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔جبکہ کئی ایک اس سے بھی سکون نہ پاکر خود ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں ۔اس حوالے سے آئے روز میڈیا کے توسط سے کافی تعداد میں خودکشی کے واقعات کی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ نشے کی لت سے چھٹکارا پانے کے لئے دنیا بھر میں دیگر طریقہ ہائے علاج کی طرح اورل سبسٹیٹیوشن تھراپی (او ایس ٹی) بھی کافی مقبول ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس سے استفادے کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔ماہرین کے مطابق گھریلو لڑائی جھگڑے،سماجی مسائل جیسے کہ زبردستی یاکم عمری کی شادی،لاء اینڈ آرڈر کی ناگفتہ بہ صورتحال، غربت،بے روزگاری،احساس عدم تحفظ اور خراب معاشی و مالی حالت زیادہ ذہنی و نفسیاتی مسائل کی وجوہات ہیں۔اگرچہ محکمہ صحت کی جانب سے لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور (ایل آر ایچ) اور خیبر ٹیچنگ اسپتال پشاور (کے ٹی ایچ ) میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کے مختلف واقعات کے متاثرہ افراد کی ذہنی و نفسیاتی بحالی کے مراکزقائم کرنے سمیت کے ٹی ایچ میں جریاٹرک سائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ کے قیام کی منظوری کا فیصلہ بھی نہایت احسن اقدام ہے ۔ تاہم یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی طرح بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پختونخوا حکومت کو اس تناظر میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ صوبے میں ذہنی صحت کی بحالی اس کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔صوبے بھر کے ضلعی و تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں میں تجربہ کار سائیکاٹرسٹ تعینات کئے جائیں اور طب کے دیگر شعبوں کی طرح سائیکاٹر ی کو بھی پر کشش بنا کر اس کا انتخاب کرنے والے نئے ڈاکٹروں کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔ کیونکہ انسانوں اور بالخصوص بچوں اور نوجوانوں پر سرمایہ کاری کرنے کا اس سے اچھا موقع اور کوئی نہیں ہے۔اس سلسلے میں حکومت کے علاوہ میڈیا اور اس سے وابستہ افراد پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ عالمی سطح پر دہشت گردی اور بدامنی سے انتہائی متاثرہ صوبہ خیبر پختونخواکے عوام کو اس ضمن میں تمام تر سہو لتیں فراہم کرکے انہیں ہر لحاظ سے صحت مند شہریوں کی حیثیت سے ملکی دھارے میں شامل کرنا وقت کا تقاضا ہےتا کہ اس سے معاشرے کی گاڑی کا پہیہ رواں دواں رہے۔


.
تازہ ترین