• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اردو پر عجب وقت پڑا ہے۔ اس زبان کے کیسے کیسے سرپرست اٹھتے جارہے ہیں۔ چل چلاؤ تو سدا سے جاری ہے مگر اِس طرف تو یوں لگتا ہے کہ ہماری اس زبان پر سنّاٹا طاری ہونے کو ہے۔ خلیق انجم کے ہونے سے بڑی ڈھارس بندھی تھی، وہ بھی چل بسے۔ اردو زبان کو جیسے انہوں نے سنوارا اور نکھارا، اردو والے ہی جانتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد اس میدان میں ہمارے دانش ور خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ بس اتنا ضرور ہے ، اور یہ خیال آتا ہے تو جبینِ عقیدت آپ ہی آپ جھک جاتی ہے کہ یہ جانے والے بڑا کام کرگئے۔ غضب کا علم سمیٹا اور پھر اس میں ہمیں حصہ دار بنا کر گئے۔ اسی کو صدقہء جاریہ کہتے ہیں۔
اور خلیق انجم کے کام کا کوئی شمار ہے؟ عمر بھر لکھتے رہے اور وہ بھی تحقیق کے جابجا بکھرے ہوئے موتی بٹور کر۔ اوپر سے یہ کہ اپنی اس ساری مشقت کو اتنے سلیقے اور ہنر مندی سے کتاب کے ورق پر بکھیر گئے کہ علم کی آنکھیں بھی منور ہوتی ہیں اور ذہن کے دریچے بھی۔ ان علم و حکمت کے جواہر کی بات ذرا دیر بعد، پہلے ان لمحات کو یاد کرلیا جائے جو میں نے خلیق انجم کے ساتھ گزارے۔
جب کبھی لندن آتے، بی بی سی کی اردو سروس ضرور آتے اور پھر جو احباب کی محفل سجتی تو منظر یہ ہوتا کہ درمیان بیٹھے، خالص دلّی کے لب و لہجے میں وہ شگفتہ باتیں کر رہے ہوتے اور اہل مجلس لطف اٹھا رہے ہوتے۔ ایک بار تو بڑی شان سے آئے۔ ہوا یہ کہ ان کے ساتھ صدیق الرحمان قدوائی اور دارالمصنفین کے عظیم دانش ور سیدصباح الدین عبدالرحمان بھی تھے۔ یوں لگا کہ بی بی سی کی عمارت بُش ہاؤس میں علم و دانش کا سمندر در آیا۔ تینوں ہستیاں اردو کے اور علمیت کے میدان کی شہ سوار اور ان کی باتیں ایسی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ خوب رنگ جما، انٹرویو ہوئے، زبان کی بات ہوئی ، تاریخ کی گفتگو ہوئی، رسالہ معارف، جس کا سید صباح الدین سے گہرا تعلق تھا، اس کی اعلیٰ خدمات کا ذکر ہوا اور میرے لئے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہ تھی کہ ان کے ساتھ میرا جو جذباتی تعلق تھا وہ قریبی رشتے میں بدل گیا۔ پھر میرا جب بھی دلّی جانا ہوا ، خلیق انجم اور قدوائی صاحب کے ساتھ یاد گار وقت گزرا۔
یہ سنہ پچاسی کی بات ہے جب میں ریڈیو کے لئے جرنیلی سڑک کے عنوان سے دستاویزی پروگرا م تیار کر رہا تھا۔ پشاور سے کلکتے تک کیسے کیسے تاریخی پڑاؤ آتے ہیں، سبھی جانتے ہیں لیکن ان مقامات کو دیکھنا او رجاننا آسان نہ تھا، اور پھر سب سے بڑھ کر دلّی۔اس وقت سوچئے کون میری مدد کو آیا۔ خلیق انجم ، جو نہ صر ف یہ کہ خالص دلّی والے تھے بلکہ قدیم دلّی کے کھنڈروں کی ایک ایک اینٹ سے واقف تھے۔ وہ میرا ہاتھ تھام کر چلے اور اس عظیم شاہراہ کے معمار شیر شاہ سوری سے تعلق رکھنے والا ایک ایک گوشہ دکھایا۔ میرے پروگرام میں ان کی آواز خوب خوب محفوظ ہے ، وہی دلّی کے مخصوص لہجے کے ساتھ۔پھر یہ کہ ان کے نام کے ساتھ لفظ خلیق لگا ہے تو یوں ہی تو نہیں۔ جب تک میں ان کے شہر میں رہا، انہوں نے میرا خیال رکھا۔ ہم دونوں ہم عمر تھے۔ وہ بھی سنہ انیس سو پینتیس میں پیدا ہوئے۔ اس وقت وہ خلیق احمد خان تھے ۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پائی۔ پھر وہ کروڑی مل کالج دہلی میں لیکچرر ہوئے اور دس سال وہاں اردو پڑھائی۔ سنہ ستّر میں دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جس کے لئے انہوں نے اردو کے شاعر مرز ا مظہر جانِ جاناں پر تحقیق کی۔ پھر وہ بھارت کی وزارت تعلیم سے وابستہ ہوئے اور اردو کے فروغ کے لئے قائم ہونے والی اندر کمار گجرال کمیٹی کے رکن بنے جس کے لئے انہوں نے ملک کے سارے ہی علاقوں کا دورہ کیااور اردو کی صورت حال کا جائزہ لیا۔ اس کے نتیجے میں تیرہ ریاستوں میں اردو اکیڈمی کے نام سے جو ادارے قائم ہوئے وہ اب تک قائم ہیں۔ سنہ پچھتر میں انہیں انمجمن ترقی اردو، ہند سے وابستہ ہونے کی دعوت دی گئی۔ اس وقت انجمن کا حال اچھا نہ تھا۔ اس کی ٹوٹی پھوٹی عمارت تھی اورباقی وہ سب کچھ تھا جو بدنظمی میں ہواکرتا ہے۔ اب وہاں پانچ منزلہ اردو گھر کی شاندار عمارت کھڑی ہے۔ یہ ادارہ مسلسل اردو رسالے اور کتابیں چھاپ رہا ہے ۔
اب ہم آتے ہیں خود خلیق انجم کی لکھی ہوئی کتابوں کی طرف جنہیں شمار کرنا بھی مشکل ہے لیکن ان کی سب سے اہم کتابو ں میں ’ متنی تنقید ‘ کمال کے درجے کو پہنچی ہے جو اعلیٰ ترین جماعتوں کو پڑھائی جاتی ہے۔ موضوع یہ ہے کہ متن کو کیسے پرکھا جائے، کیونکر اس کی تدوین کی جائے اور توضیح کیسے ہو اور کس طور پر متن کو ترتیب دیا جائے۔ خلیق انجم کا دوسرا کارنامہ و ہ پانچ جلدیں ہیں جن میں انہوں نے مرزا غالب کے تمام دستیاب خط یک جا کردئیے ہیں۔ اوپر سے تمام حاشئے اور وضا حتیں ان کی تحقیق کا بے مثال نمونہ ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تین کتابیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں: غالب کا سفرِ کلکتہ، غالب کچھ مضامین او رغالب اور شاہانِ تیموریہ۔
دلّی کے کھنڈروں کا حال آپ پڑھ چکے۔ اس میں بھی انہیں کمال حاصل تھا۔ ان کی تین کتابیں، مرقعء دہلی، دلّی کے آثار قدیمہ اور درگاہ ِ شاہِ مرداںشہر کی قدیم عمارتوں کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔ اس سے بھی بڑا کمال انہوں نے یہ کیاکہ سرسید احمد خاں کی تاریخ ساز کتاب ’آثارالصنادید‘ کو ترتیب دیا، سنوارا، نکھارا اور جدید زمانے کے قاری کو تین جلدوں میں پیش کیا۔
اردو زبان سے ان کے لگاؤ کو بیان کرنا دشوار ہے۔ اس بارے میں ان کی جو رائے تھی، آخر دم تک اس پر قائم رہے۔ ہمارے اردو کے استاد ڈاکٹر رؤف پاریکھ سے ایک ملاقات میں انہوں نے کہا تھا کہ اردو کبھی مرنہیں سکتی۔ اپنی طویل تاریخ میںیہ کتنی ہی آزمائشوں سے بچ نکلی اور ابھی اور کئی آزمائشوں سے گزرنا ہے۔ یہ اپنی راہیں خود تراشے گی اور دنیا میں ہر جگہ پھولے پھلے گی۔ میں اردو اور اس کے مستقبل کے معاملے میں بہت پُر امید ہوں۔بھارت میں اردو کا کیا حال ہوگا، اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہاں اردو کا مستقبل اسی قدر خطرے میں ہے جتنا ہندی کا ہے۔اور زبانوں کو یہ خطرہ انگریزی سے ہے جو دونوں ہی ملکوںمیں ترجیحی زبان ہوتی جارہی ہے۔ مالدار طبقہ اب انگریزی ہی بولتا ہے اور اس پر اتراتا بھی ہے۔ یہ جو دنیا سکڑ رہی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ انگریزی کو برتری حاصل ہو رہی ہے۔ یہ کتنی ہی زبانوں کو تباہ کر رہی ہے اور لوگوں سے ان کی مادری زبانیں چھین رہی ہے۔ کچھ بھی ہو، میں یہی کہوں گا کہ اردو ساری آزمائشوں کو پھلانگ جائے گی۔
پاکستان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہاں اردو کا حال قدر ے بہتر ہے کیونکہ یہ ایک مشترک زبان ہے جو پورے ملک کو یکجا رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اردو کی مخالفت نسبتاً کم ہے اور اردو سے لگاؤ رکھنے والے بہت ہیں۔ بھارت میں اردو کتابیں ہندی رسم الخط میں چھاپنے کے رواج کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک مجبوری ہے۔ لوگ غالب کو اور فیض کو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن اردو رسم الخط نہیں پڑھ سکتے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اس میں اردو کا کوئی نقصان نہیںکیونکہ اس طرح اردو کتابیں مقبول ہو رہی ہیں۔ البتہ اردو رسم الخط تبدیل کرنے کا خیال بھی دل سے نکال دینا چاہئے۔ اردو رومن حروف میں لکھی جائے، میں اس کا بھی مخالف ہوں۔
ادب کے معیار کی بات چلی تو خلیق انجم نے کہا کہ مجھے پاکستان میں اردو کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادبی تحقیق اور تنقید کا معیارہندوستان میں کہیں اونچا ہے۔ البتہ پاکستان میں تخلیقی ادب کا حال بہت بہتر ہے۔ پاکستان میں ادیب او رشاعر بہت آگے ہیں لیکن بھارت میں دانش ور بہتر کام کر رہے ہیں۔ وہاں تحقیق کی روایت صدیوں پرانی ہے، کتاب خانے ہیں، کلاسیکی تحریریں محفوظ ہیں اور چھان بین کے اسباب زیادہ ہیں۔
اس ملاقات کے آخر میں خلیق انجم نے کہا کہ بھارت سے آنے والوں کی پاکستان میں جو آؤ بھگت ہوتی ہے وہ دلوں میں جگہ کر لیتی ہے۔ ایسے میں یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ یہاں میرے میزبان کبھی بھارت آئیں تو یہاں جیسی میزبانی کی توقع نہ رکھیں۔
ہم تو یہ جانتے ہیں کہ کیا یہاں اور کیا وہاں، خلیق انجم ، آپ ایک بہتر ٹھکانے کو سدھار گئے ہیں۔


.
تازہ ترین