• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاں جمہوریت وہ گرم آلو ہے جس کے طبی فوائد اور ثمرات تو سب حاصل کرنا چاہتے ہیں مگرجیسے ہی اسے تھامنے لگتے ہیں تو ہتھیلی جلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور فوراًدوسروں کی طرف اچھال دیتے ہیں۔شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ہو جو جمہوریت کا دم نہ بھرتی ہو، حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار ،سب اس بات پر متفق و متحد دکھائی دیتے ہیں کہ جمہوریت پر کوئی آنچ نہ آئے ۔ان سب کی یہ بھی خواہش ہے کہ ملک میں جمہوریت پھلے پھولے ،جمہوری اقدار و روایات فروغ پائیں ،جمہوری و پارلیمانی ادارے مضبوط ہوں لیکن اگر ان سے یہ کہا جائے کہ حضور والا! جمہوریت اگر اتنی ہی مفید اور سودمند جنس ہے تو سب سے پہلے آپ اسے اپنی سیاسی جماعت میں متعارف کیوں نہیں کراتے؟تو سب برا مان جاتے ہیں اور بوٹ پالشیے کے القابات سے نوازنے میں دیر نہیںلگاتے۔ہمارے سیاستدان چاہتے ہیں کہ ہر پانچ سال بعد باقاعدگی سے عام انتخابات کا شفاف،غیر جا نبدارانہ اور آزادانہ انعقاد یقینی بنایا جائے اور اس میں کسی قسم کا تعطل نہ آنے پائے لیکن جب ان سے پارٹی الیکشن کروانے کو کہا جائے تو یوں منہ بسور لیتے ہیں جیسے کسی نے ان سے لالی پوپ چھین لی ہو۔الیکشن کمیشن کے دبائو پر طوعاً وکرہاً ہر پارٹی میں انتخابات کروائے تو جاتے ہیں لیکن ان کی قانونی، سیاسی اور اخلاقی حیثیت ایسی ہی ہوتی ہے جیسی ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی۔ایسی ہی ایک مشق چند روز قبل اسلام آبادمیں ہوئی جہاں نواز شریف نے اپنے مقابل امیدوار نواز شریف کو شکست دیکر پارٹی کی صدارت کا انتخاب جیت لیا۔اور پھر شہباز شریف نے ان کی تقلید کرتے ہوئے پنجاب کے پارٹی انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔جس طرح 1977ء کے انتخابات میں بھٹو کی جیت یقینی تھی مگر اپنی انا کی تسکین کے لئے جان محمد عباسی کو اغواکر کے بلامقابلہ منتخب ہونے کا شوق پورا کیا گیا اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل میں بھی یہ اہتمام کیا گیا کہ کوئی شخص میاں نواز شریف کے مقابل آنے کی جرات نہ کرے۔اگر راجہ ظفر الحق،چوہدری نثار ،خواجہ سعد رفیق سمیت کوئی بھی شخص نوازشریف کے مقابلے میں کاغذات جمع کروا دیتا تو بھی یہ نورا کشتی ہی ہوتی اور نوازشریف بھاری اکثریت سے جیت جاتے ۔خواہ ڈرامہ ہی سہی لیکن ایسی صورت میں یہ قابل قبول ڈرامہ ہوتا ۔اور اگر نواز شریف وسعت قلبی کامظاہرہ کرتے اور انتخابات میں حصہ ہی نہ لیتے اور پارٹی کی صدارت کسی بھی قابل اعتماد سینئر رہنما کو سونپ دی جاتی تو کیا مسلم لیگ (ن) پر نواز شریف کی گرفت کمزور ہو جاتی؟اس سے پہلے راجہ ظفر الحق کو چیئرمین بنا یا گیا تھا تو اس سے نواز شریف کے اختیارات میں کوئی کمی آئی کیا؟لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کو یہ بھی گوارہ نہیں کہ کوئی ان کے مقابل آئے ،یہ بھی پسند نہیں کہ رسمی طور پر ہی کسی کو کوئی عہدہ یا اختیار دیدیا جائے۔کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں نہیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں،ان سیاسی خانوادوں کی ذاتی و خاندانی اور سیاسی جاگیر ہیں جس پر کسی ورکر کا کوئی حق نہیں۔ورکر بیچارے تو شودر اور اچھوت ہیں،وہ سیاسی پنڈتوں اور برہمنوں کی برابری کیسے کر سکتے ہیں ۔ان کی قسمت میں تو چاکری اور غلامی لکھی ہے،وہ تو پید اہی اس لئے ہوتے ہیں کہ ان سیاسی آقائوں کی خدمت میں کورنش بجا لائیں اور ان کے دربار میں نورتن کے فرائض سرانجام دیں۔
یہ معاملہ محض مسلم لیگ (ن) تک محدود نہیں بلکہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ایم کیو ایم تو عبث بدنام ہے ورنہ یہاں تو سب کو منزل نہیں رہنما درکار ہے۔مسلم لیگ (ن ) شریف خاندان نے پٹے پر لے رکھی ہے،پیپلز پارٹی کا ٹھیکہ بھٹو خاندان کے پاس ہے اور اب کچھ شیئرز زرداری خاندان نے خرید لئے ہیں۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کی بنیاد مولانا مفتی محمود نے رکھی تو یہ کسی قانونی و سیاسی رکاوٹ کے بغیر ان کے فرزند مولانا فضل الرحمان کو منتقل ہو گئی۔عوامی نیشنل پارٹی ولی خاندان کی ذاتی جاگیر تھی اس لئے وراثت کے طور پر اسفند یار ولی نے قیادت سنبھال لی۔ایم کیو ایم کئی ٹکڑوں میں بٹ جانے کے باوجود آج بھی الطاف حسین کے گرد گھومتی ہے۔تحریک انصاف جو تبدیلی کی علمبردار اور انقلاب کی دعویدار ہے اس کے ہاں عام انتخابات سے پہلے جو پارٹی الیکشن ہوئے اس میں دھاندلی کے چرچے ابھی تک زبان زدعام ہیں۔اگرچہ تب بھی چیئرمین کے عہدے پر انتخابات نہیں ہوئے تھے اور عمران خان نے نواز شریف کی طرح منتخب ہونے کے لئے کسی قسم کی رسمی اور نمائشی مشق کا تکلف و تردد بھی نہیں کیا تھا لیکن اس کے بعد آج تک دوبارہ پارٹی انتخابات کروانے کی ہمت نہیں ہوئی۔رواں سال پارٹی انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا لیکن رائے ونڈ مارچ سے پہلے پارٹی انتخابات ملتوی کر دیئے گئے۔عمران خان ہوں ،بلاول زرداری،نواز شریف، فضل الرحمان یا پھر اسفند یار ولی ،یہ سب اپنی اپنی سلطنتوں کے بے تاج بادشاہ ہیں۔
جب مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پارٹی انتخابات کا اعلان ہوا تو میرا خیال تھا میاں صاحب عمران خان کے حملہ آور ہونے سے پہلے اپنی صف بندی کرنا چاہتے ہیں،اپنے لشکر کو مجتمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اختیارات منتقل کرکے پارٹی قیادت کو نیا حوصلہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی مخالفوں کا جارحانہ انداز میں مقابلہ کر سکیں ۔لیکن انہوں نے تو اختیارات منتقل کرنے کے بجائے فیلڈ مارشل کا عہدہ بھی خود سنبھال لیا۔جب ان کی اپنی جماعت میں جمہوریت نہیں تو وہ کس منہ سے جمہوریت کے تحفظ کی بات کریں گے۔جب سیاسی جماعتوں میں آمریت اور بادشاہت کا راج دیکھتا ہوں تو مجھے جنرل ضیاء الحق اور ولی خان کا مکالمہ یاد آتا ہے۔جنرل ضیاء الحق نے سیاسی جماعتوں میں آمریت کا طعنہ دیتے ہوئے ولی خان سے کہاکہ سیاستدانوں کو جمہوریت کی اے بی سی کا بھی نہیں پتہ۔ولی خان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،جنرل صاحب! ہم جب بھی جمہوریت کی اے بی سی سیکھنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں ،فوراً ہی آمر آ جاتا ہے۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان انتہائی نالائق طالب علموں کی طرح اے بی سی سیکھنے میں اس قدر تاخیر کر دیتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی حقیقی جمہوریت متعارف کروانے والا آٹپکتا ہے۔وقت مُٹھی میں بند ریت کی طرح پھسل رہا ہے اور جیسے جیسے 2نومبر کا دن قریب آ رہا ہے اس سوال کی تکرار بڑھتی جا رہی ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی اے بی سی سیکھنے سے پہلے کوئی آ جائے گا؟میرا خیال ہے ایسا نہیں ہو گا۔اس مرتبہ سیاستدانوں کو جمہوریت کی اے بی سی سیکھنے کا پورا موقع دیا جائے گا۔


.
تازہ ترین