• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان اسلام آباد فتح کرنے کے لئے اپنی جنگی تیاریوں میں مشغول ہیں۔ انہوں نے حکومت کو دو نومبر کی تاریخ دی ہے تاکہ اسلام آباد پر حملے کی نوبت آنے سے پہلے وہ رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال دے، عمران خان کو وزیر اعظم تسلیم کرنے کا اعلان کرے بصورت دیگر جنگ کرنے کے لئے تیارہوجائے۔ مجیب الرحمان شامی کو عمران خان کی طرف سے صلح کی یہ مشروط پیشکش پسند آئی ،چنانچہ انہوں نے اپنے ٹی وی پروگرام میں کہا کہ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو اگلے دن کوئی اور مہم جو اسلام آباد پر چڑھائی کرکے اپنی وزارت عظمی کا اعلان کردے گا، چنانچہ شامی صاحب نے اس صورتحال سے بچنے کے لئے ایک تجویز پیش کی ہے اور وہ یہ کہ آئین پاکستان منسوخ کردیا جائے ،پارلیمنٹ ، عدلیہ کو کام کرنے سے روک دیا جائے، انتخابات کے ذریعے پاکستانی عوام کو اپنی حکومت کے قیام کے حق سے محروم کردیا جائے اور اس بکھیڑے میں پڑنے کی بجائے ہر کسی کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ اسلام آباد پر چڑھائی کردے اور ’’فتح‘‘ کی صورت میں وہ ملک کا وزیر اعظم بن جائے۔
کیا عمدہ تجویز ہے، اس پر عمل کی صورت میں ہم لوگ ’’ضرب عضب‘‘ پر جو اربوں کھربوں روپے خرچ ہورہے ہیں اور یوں قومی خزانے کے ضیاع کا سبب بن رہے ہیں وہی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگی، جن دہشت گردوں کے خلاف ہماری حکومت اور فوج رقم خرچ کررہی ہے ہمارے فوجی بھائی اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں اور ان کے علاوہ ہزاروں پاکستانی ان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں یہ سب سلسلہ ختم ہوجائے گا، یہ لوگ کسی سیاسی نعرے کو بنیاد بنا کر اسلام آباد پر چڑھائی کردیں گے اور اپنے ’’خلیفہ‘‘ کو وزیر اعظم کا نام دے کر پاکستانی عوام کو وہ اسلامی نظام دیں گے جس کا اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف اور یہ’’جہادی‘‘ مشترکہ پیشکش سے اسلام آباد پر حملہ آور ہوں اور پاکستان کے دارالحکومت کی اینٹ سے اینٹ سے بجانے کی کوشش کریں۔ یہ حکمت عملی بھی بری نہیں ہے کہ اس صورت میں ایک کافر ملک عوامی جمہوریہ چین کی اقتصادی راہداری کا منصوبہ کھٹائی میں پڑجائے گا۔ عوام کو اندھیروں سے نکالنے کے لئے انرجی کے جو بیسیوں پروگرام شروع کئے جاچکے ہیں وہ بھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکیں گے اور یوں تحریک انصاف اور اس کے جہادی ہم سفر عوام کو اکیسویں صدی کی روشنیوں سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو روشنی نہیں بلکہ دراصل کفر کے اندھیرے ہیں، جن میں پاکستانی عوام کو دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
دوسری طرف پاکستانی حکومت ہے، جو اس بارتحریک انصاف کے سابقہ دھرنا کے دوران کی پالیسی دہرانے کے موڈ میں نظر نہیں آتی کیونکہ اس بار انہیں لگتا ہے کہ پورا جمہوری نظام ڈی ریل کرنے کی سازش ہورہی ہے اور یوں قائد اعظم کے پاکستان کو ایک بار پھر ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کو بھی حکومت سے بہت سے گلے شکوے ہیں مگر وہ جمہوریت کے تحفظ کے حوالے سے یک زبان ہیں اور یوں ان میں سے کوئی ایک جماعت بھی اسلام آباد چڑھائی کے نہ صرف حق میں نہیں بلکہ ملک و قوم کے لئے تباہ کن تصور کرتی ہے۔ عمران خان اس وقت بہت بری طرحDesprateہیں، انہیں لگتا ہے اور وہ کہتے بھی ہیں کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان کی یہ آخری کوشش ہے۔ وہ کسی ادارے کو نہیں مانتے، ان کے نزدیک انصاف صرف وہ ہے جو ان کے حق میں ہو۔ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو ان کے ساتھ نہیں وہ حکومت کا ایجنٹ ہے، مگر کیا عمران خان خود اپنے ساتھ ہیں، میرے نزدیک وہ اپنے ساتھ نہیں، بلکہ اپنے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ تحریک انصاف کو جتنا نقصان اپنی نئی قسم کی پالیسیوں سے انہوں نے پہنچایا ہے اتنا نقصان ان کے کسی مخالف نے بھی نہیں پہنچایا، چنانچہ حکومت کو میر امشورہ ہے کہ وہ انہیں کسی بڑے اعزاز سے نوازے، اس اعزاز کے لئے عمران خان سے مشورہ کیا جاسکتا ہے، مجھے یقین ہے کہ جو اعزاز وہ اپنے لئے پسند کریں گے وہ اعزاز بھی ان کی پالیسیوں جیسا ہی ہوگا جو حلق میں پھنسے ہوئے مچھلی کے کانٹے کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔


.
تازہ ترین