• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر نئی ایجاد کی طرح ٹوئٹر ،فیس بک اور واٹس ایپ کے بے شمار فوائد ہیںجن سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ کمیونکیشن کے تیز ترین اور بہت سستے ذرائع ہیں۔ٹی وی چینلز پر بہت سی خبریں بریک ہونے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر بریک ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کے کچھ سیاستدان اور ادارے ٹوئٹر کو کافی اچھے انداز میں استعمال کر رہے ہیں جہاںوہ اپنے آفیشل بیان جاری کر تے ہیں جنہیں ٹی وی چینلز اور اخبارات فوراً استعمال کرتے ہیں۔ مریم نواز اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر وزیراعظم نواز شریف کے لندن میں ہونے والے دل کے آپریشن کی لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس جاری کرتی رہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی ٹوئٹر کافی استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ کوئی جلسہ یا مطالبہ کرنے کے بعد بھی اس کی ہائی لائٹس اپنے اکائونٹ سے جاری کر دیتے ہیں۔ آئی ایس پی آر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور افواج پاکستان کی اہم سرگرمیاں ،مصروفیات اور بیانات بھی اپنے ٹوئٹر اکائونٹ سے جاری کرتا ہے۔اسی طرح کچھ وزراء بھی اپنے خیالات کا اظہار ٹوئٹر کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس سہولت کی وجہ سے ان سب افراد اور اداروں کو باقاعدہ پریس ریلیز جاری کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پیغامات نشر کرنے کی کاسٹ بھی بہت کم ہے اور یہ ہے بھی بہت فاسٹ۔
مگرکمیونکیشن کے ان نئے ذرائع کے نقصانات بھی کافی زیادہ ہیں ان میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈا ٹولز کے طور پر بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ خصوصاً ٹوئٹر جس میں ہر قسم کی گالی مخالفین کو دی جاتی ہے ،بدترین گند اچھالا جاتا ہے اور جھوٹ اور ڈس انفارمیشن کو بڑھ چڑھ کر فروغ دیا جاتا ہے۔ ٹوئٹر پر لاکھوں اکائونٹ ایسے ہیں جن کے استعمال کرنے والوں کی شناخت ہی معلوم نہیں اور وہ پردے کے پیچھے سے آپریٹ کرتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ سیاسی جماعتوں بشمول نون لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی اور کچھ اداروں نے بھی بے شمار ایسے ہی بے نام اور گمنام اکائونٹ بنائے ہوئے ہیںجن کے ذریعے وہ اپنے ٹارگٹ پر ہر روز وار کرتے ہیں اور ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ یہ مخالفین کے ایسے ایسے کارٹون ،کیری کیچرز اور فوٹو شاپ کی ہوئی تصاویر جاری کرتے ہیں جن سے ان کے پست ذہن کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ فیک اکائونٹ والے ٹوئٹر پر اپنے ہدف کے خلاف مختلف ٹرینڈ بھی چلاتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کو ڈسپلن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس میں سے گندگی، گالیوں اور توہین آمیز مواد کو خارج کیا جائے۔ بہت سے کیسز ایسے بھی ہوئے ہیں جہاں فیس بک کے ذریعے دوستی خودکشی کا باعث بنی۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے خواتین کو ہراساں کرنے کی بھی کافی شکایات ہیں جن پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کم ہی ایکشن لیتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نئے میڈیا کو مفید طور پر استعمال کرنے کیلئے نہ کہ دوسروں کی توہین کرنے اور گالی دینے کیلئے استعمال کیا جائے۔
عام لوگوں کے واٹس ایپ گروپ بنانے اور اس کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرنے یا معلومات ایکسچینج کرنے پر تو کوئی اعتراض نہیں مگر کچھ مخصوص حضرات نے ایسے گروپ بنائے ہوئے ہیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے مخالفین کے بارے میں بدترین پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ وہاں ایسے ایسے ’’دانشور‘‘ جنہوں نے مختلف لبادے پہن رکھے ہیں موجود ہیں جو کہ سوائے جھوٹ اور نفرت کے کچھ نہیں پھیلاتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کچھ دن قبل بھارت میں بھی ہوا جس میں اڑی حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان لڑائی کو تیز کرنے کیلئے ایک واٹس ایپ گروپ کے ذریعے یہ پھیلایا گیا کہ 9دہشتگرد جو پاکستان سے بھارت میں داخل ہوئے تھے کو انڈین فورسز نے مار دیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ انڈین میڈیا جس نے یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی تھی نے ہی اسے بعد میں رد کر دیا اور کہا کہ اس کی بنیاد ایک غلط واٹس ایپ میسج تھا۔ پاکستان میں بھی کچھ واٹس ایپ گروپ ایسے ہیں جو منتخب جمہوری حکومت کے خلاف ہر روز زہر پھیلا رہے ہیں۔ ان کے ممبران کو مختلف دلائل دے کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے بھارت کے ساتھ خفیہ تعلقات ہیں۔ اس سے بڑی لغو بات کیا ہوسکتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں نے بینظیر بھٹو شہید جبکہ وہ وزیراعظم تھیں کو سیکورٹی رسک قرار دیا تھا۔ ایسے گروپ استعمال کرنے والوں کا اپنا ایجنڈا ہے اور وہ ہے کہ ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہ ہو اور ہر وقت ہی آمر حکمران رہیں۔ یقیناً ایسے گروپوں کے اسپانسر کوئی اور ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے بہت سارے ممبران چاہتے ہیں کہ انہیں بڑے بڑے عہدے دوبارہ مل جائیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نہ تو وہ عوامی پذیرائی کے ذریعے کبھی بھی منتخب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی جمہوری حکومت میں کوئی جگہ ہے۔ ایسے گروپوں میں اگر کوئی بندہ کبھی عقل کی بات کربھی دے اور یہ دلائل دے کہ جمہوریت میں ہی پاکستان کی بقا ہے اور آمریت اس کیلئے زہر قاتل ہے تو اس کی خوب درگت بنائی جاتی ہے یہاں تک کہ اسے اس فورم سے خارج بھی کر دیا جاتاہے۔
آخر میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور چیئرمین پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) مصطفیٰ کمال کے درمیان جاری جنگ کے بارے میں چند الفاظ۔ جو گند دونوں نے ایک دوسرے پر اچھالا ہے اس سے ان کا نقصان تو جو ہوا ہے وہ ہوا مگر سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس سے یہ پیغام ضرور گیا ہے کہ کئی دہائیوں تک ایم کیو ایم کتنے سنگین جرائم اور کرپشن میں ملوث رہی ہے۔ ان کی سب باتوں کو سچ ماننا چاہئے کیونکہ اپنے اپنے وقت میں یہ دونوں ایم کیو ایم کے انتہائی اہم ’’ان سائیڈر‘‘ رہے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک دوسرے کے ماضی اور اعمال کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایم کیو ایم میں کیا کچھ کس کے کہنے پر ہوتا رہا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ دونوں ہی ایک مخصوص طبقے کے حمایت یافتہ ہیں مگر پھر بھی آپس میں لڑ رہے ہیں ۔سب کو معلوم ہے کہ پی ایس پی کس طرح ،کہاں سے اور کس کے کہنے پر نمودار ہوئی۔ اگر عشرت العباد کےمخصوص حلقوں کے ساتھ مثالی تعلقات نہ ہوتے تو وہ 14 سال سے سندھ کے گورنر نہ ہوتے۔ ان دونوں لیڈروںکے درمیان لڑائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس جنگ میں پہلا وار مصطفیٰ کمال نے جب انہوں نے گورنر کو رشوت العباد کہا۔ ڈاکٹر عشرت العباد جو کہ کم ہی بولتے ہیں کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ذاتی حملے کا بھر پور جواب دیں لہذا انہوں نے مصطفیٰ کمال کو انتہائی سخت اور کھری کھری سنائیں۔


.
تازہ ترین