• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہذب ممالک میں احتجاج کیلئے مقامات قانونی طور پر مختص ہیں

لاہور (صابر شاہ) پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے اعلان کے مطابق پی ٹی آئی 2نومبر کو اسلام آباد بند کرنے جا رہی ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ابھی یہ طے کرنا ہے کہ عمران خان کو اسلام آباد کی طرف بڑھنے کی اجازت دی جائے یا اس سے بچنے کے لئے پی ٹی آئی کارکنوں کیخلاف کریک ڈائون کیا جائے۔ گزشتہ چند سالوں میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں احتجاجی مظاہروں، مختلف نوعیت کی ریلیوں اور ہڑتالوں نے اس شہر کے سکون کو برباد کرکے رکھ دیا ہے کبھی سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں، کبھی مذہبی جماعتوں، اساتذہ، ڈاکٹر، کسان، نرسز یہاں تک کہ معذور افراد نے بھی احتجاج کے لئے وفاقی دارالحکومت کا انتخاب کیا جس سے اس شہر کی روزمرہ سرگرمیاں مفلوج اور متاثر ہوئیں۔ لاہور میں حال ہی میں نکالی جانے والی مختلف ریلیوں اور احتجاجوں کے بارے میں یہاں ذکر کرتے    ہیں ہم ان سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے احتجاج کا ذکر کر رہے ہیں جو اپوزیشن میں ہوتی ہیں جبکہ موجودہ حکمران پارٹی مسلم لیگ (ن) بھی ماضی میں جب اقتدار سے باہر تھی اسی طرح کے احتجاج اور مظاہروں کی سیاست کا حصہ رہی ہے۔ مثال کے طور پر 25اگست 2014 کو حمزہ شہباز کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی نکالی جانے والی ریلی کے شرکاء نے لاہور کے مصروف علاقے چیئرنگ کراس کو بلاک کر دیا اس کے جواب میں عمران خان اور طاہرالقادری کے کارکنوں نے مئی 2013 کے عام انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا جس میں نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے فرزند حمزہ شہباز نے تب کہا تھا کہ اسلام آباد کے دھرنے سے صرف 11 دنوں میں قومی خزانے کو 700 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ نواز شریف سے اظہار یکجہتی کے لئے مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اپنے کارکنوں کو ان کی ریلی میں شرکت کے لئے بھیجا۔ اسی روز تحریک انصاف کے کارکنوں نے گلبرگ مین بلیوارڈ میں دھرنا دے کر ٹریفک بلاک کر دی، جس سے لاہور کے شہریوں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 14اگست 2014 کو عمران خان نے اسلام آباد روانگی سے قبل چیئرنگ کراس پر اپنے کارکنوں سے خطاب کیا۔ مصدقہ دستاویز میں اس بات کا ا نکشاف موجود ہے کہ 17 جنوری 2015 کو لاہور کے شہری بڑی تعداد میں آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ میں شہید بچوں کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کے لئے جمع ہوئے، تمام طبقہ فکر کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد پنجاب اسمبلی کے سامنے جمع ہوئی، نومبر2014 سانحہ واہگہ بارڈر کے شہداء کے ورثاء کی بہت بڑی تعداد بھی اس ریلی میں شریک تھی۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق) اور دیگر سے وابستہ بڑی تعداد میں لوگوں نے اس ریلی میں شریک ہو کر شمعیں روشن کیں۔ اپریل 2016 میں جماعت اسلامی نے سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں چیئرنگ کراس پر اس مقام پر بہت بڑا احتجاج کیا جہاں ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ نصب ہے۔  برصغیر پاک و ہند میں بھی احتجاج اور ریلیوں کی منفرد تاریخ ہے۔1920ء میں گاندھی کی طرف سے برطانوی راج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک کا آغاز اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔یہ تحریک 1919ء میں وقوع پذیر ہونے والے سانحہ جلیانوالہ باغ کے جواب میں شروع کی گئی تھی  جس میں انگریز فوجی افسر بریگیڈیئر جنرل ڈائر کے حکم پر 379معصوم اور نہتے افراد کو گولیوں سے بھون دیاگیاتھا۔1930ء میں مہاتما گاندھی نے ایک بار پھر سالٹ مارچ (ڈانڈی ستیہ  گرہ) تحریک کا آغاز کیا جس کا مقصد راج برطانیہ کے ہندوستانیوں کیخلاف مظالم کو روکنا تھا ۔اس مارچ نے عالمگیر توجہ حاصل کر لی۔یہ تحریک آزادی ہند کا محرک بھی ثابت ہوئی جوآگے چل کر پورے ملک میں سول نافرمانی تحریک کی شکل اختیار کر گئی ۔مقامی لوگ ساحلی گائوں  ڈانڈی  کا نمک استعمال کرتے تھے جب کہ برطانوی حکومت نے ان کے نمک پیدا کرنے کی سرگرمیوں کو غیرقانونی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی ۔مہاتما گاندھی نے ہندوستانیوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کیلئے اس طرح کے احتجاج اور ریلیوں کے سلسلے کو جنوبی افریقہ میں بھی جاری رکھا ، تاہم گاندھی کو 4مئی 1930ء کی درمیانی شب گرفتار کر لیا گیا ، تاہم اس وقت مہاتما گاندھی ابھی تک برصغیر کی آزادی کی تحریک کے حوالے سے عالمی توجہ حاصل نہیں کر پائے تھے۔1930ء کے سالٹ مارچ کےنتیجے میں تقریباً 8ہزار سے زائد افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا ۔جنگ گروپ اور جیو ٹی وی کی ریسرچ کے مطابق اقوام متحدہ کے چارٹر،انسانی حقوق کے تسلیم شدہ عالمی ایجنڈے اور تمام جمہوری ملکوں کے آئین اور دستور کی وجہ سے احتجاج اور اجتماع کی آزادی شہریوں کا بنیادی جمہوری حق ہے،تاہم بہت سارے ملکوں میں اس حق کادائر ہ محدود کیا جا رہا ہے۔بھارت میں 1973ء کے دستور کی شق 145کے مطابق ایک مجسٹریٹ کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی جگہ 10سے زیادہ افراد کی موجودگی کو روک سکتا ہے۔انڈین پینل کوڈ کی شق 141اور 149کے مطابق اس جرم میں ملوث افراد کو تین سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔مذکورہ قانون کی پہلی مرتبہ استعمال 1861ء میں برطانوی راج کے دوران کیا گیا جس کے بعد اس طرح کے عوامی اجتماعات کی روک تھام کیلئے یہ سب سے کارگر اور موثر اختیار بن گیا۔بھارت میں عوامی اجتماعات اور احتجاج کی روک تھام کیلئے سرکاری مشینری اور ہر دور میں متحرک رہی ہے تاہم اس حوالے سے 2012ء میں دہلی کے مشہور زمانہ اجتماعی زیادتی کے واقعہ کیخلاف شروع ہونیوالے مظاہروں میں سرکاری مشینری اور آلات کا کھل کر  استعمال دیکھنے میں آیا جب ایک سپیشل مجسٹریٹ نے دسمبر 2012ء میں عوامی اجتماعات کیلئےخصوصی جگہ انڈیا گیٹ کے آس پاس احتجاج اور مظاہروں پر 6ماہ تک پابندی کا حکم جاری کر دیا ۔جنوری 2013 میں دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے مجسٹریٹ کے احکامات کو شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا۔
تازہ ترین