• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بی آئی ایس پی میں 12ارب کی مالی بے ضابطگیاں ہوئیں، آڈٹ رپورٹ میں انکشاف

اسلام آباد (  نمائندہ جنگ ) بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 12ارب روپےسے زائد کی مالی بے ضابطگیوںکاانکشاف ہوا ہے ، آڈیٹرجنرل کی 2015-16کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2014-15میں غیرقانونی طور پر 6 کمرشل بینکوں کو تین فیصد سروس چارجز کے عوض بی آئی ایس پی کے مستحقین کیلئے  سہولت مراکز قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ بینکوں کو سروس چارجز کی مد میں دو ارب 20کروڑ روپے ادا کر دیئے گئے لیکن سہولت مراکز قائم نہیں کیے گئے۔ بنک الفلاح کو 36کروڑ 20لاکھ روپے ، حبیب بنک کو 51کروڑ 20لاکھ  ، سندھ بنک کو 2کروڑ   ، سمٹ بنک کو 10کروڑ 82لاکھ  ، تعمیر بنک کو 53کروڑ 94لاکھ  اور یو بی ایل کو 65کروڑ 11لاکھ روپے سروس چارجز کی مد میں اد کیے گئے۔ ان بنکوں کا انتخاب اپنی مرضی سے کیا گیا اور 40لاکھ مستحقین میں فنڈز کی تقسیم کیلئے بنکوں کا انتخاب  شفافیت اورکسی مسابقتی عمل کے بغیر کیا گیا ، بنکوں اور بی آئی ایس پی کے مابین معاہدہ  وزارت قانون کی کلیرنس کے بغیر کیا گیا ،  فنڈز کی تقسیم کیلئے اے ٹی ایم  کارڈز کے اجراء کیلئے بنکوں کو کمیشن  کمانے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انتظامیہ نے  آڈٹ حکام کو جواب میں بتایا کہ ان بنکوں کے ساتھ   30ستمبر 2014تک معاہدہ تھا اور پھر اس کو 31دسمبر 2015تک توسیع د ی گئی۔ وزیر اعظم نے انہی بنکوں کے ساتھ کام جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔  بی آئی ایس پی کی انتظامیہ نے وزیراعظم  سے 13دسمبر 2013کو انہی بنکوں کے ساتھ کام کرنے کی  2013-14کے پہلے چھ ماہ کیلئے منظوری لی تھی لیکن بی آئی ایس پی کی انتظامیہ نے وزیر اعظم  کی اجازت کا ناجائز فائدہ اٹھایا ، وزیر اعظم نے اس کی اجازت ایک مقررہ مدت کیلئے دی تھی۔ آڈٹ رپور ٹ کے مطابق ایک ارب 26کروڑ روپے کی ڈیپوٹیشن ملازمین کو خلاف ضابطہ اور غیر قانونی ادائیگی کی گئی پاکستان پوسٹ کو دیئے گئے تین ارب 84 کروڑ کا بھی حساب مل سکا، نہ بینکوں نے 60 کروڑ روپے کا حساب دیا۔  جبکہ دو  ارب 24کروڑ روپے کےسرکاری فنڈز کو غیر قانونی طورپر بنکوں میں مستحقین کے اکائونٹس میں زیادہ عرصے تک رکھا گیا ، حالانکہ  بی آئی ایس پی کے اپنے رولز کے تحت کارڈز کی تقسیم کے بعد دو ماہ تک رقم کو مستحقین کے اکاوئنٹس میں رکھا جا سکتا ہے اور اس رقم کے نہ نکالنے کی صورت میں اسکو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق 74ہزار تین سو 96 مستحقین کیلئے 2ارب 24کروڑ روپے کی رقم دوسال تک ان کے اکائونٹس میں موجود رہی جس کو قومی خزانہ میں واپس بھیجا جانا چاہیے تھا ،اور اس رقم کو واپس نہ لینے پر بی آئی ایس پی کی انتظامیہ کے اپنے ہی رولز کی خلاف ورزی کی ، آڈٹ رپور ٹ کے مطابق  مالی سال کے اختتام کے باوجود خرچ نہ ہونیوالے ایک ارب 67کروڑ روپے کے فنڈز خلاف ضابطہ قومی خزانے کو واپس نہیں کیے گئے ، مالی سال 2014-15کے اختتام پر پاکستان پوسٹ آفس اور دو بنکوں یو بی ایل اور سندھ بنک کے اکائونٹس  میں ایک ارب67کروڑ روپے کے فنڈز موجود رہے اور ان کو واپس نہیں لیا گیا ، ایک متنازع معاہدے کے تحت 67کروڑ روپے کی نادرا کو ادائیگی کی گئی ، 61کروڑ روپے کی رقم کے ریکارڈ میں فرق ہے ، کیش بک میں موجود 61کروڑ روپے کا ریکارڈ کمپیوٹر کے ریکارڈ میں اس کا اندراج نہیں ،  آڈٹ رپورٹ کے مطابق بی آئی ایس پی کی انتظامیہ  کی غفلت کے باعث تین ارب 85کروڑ روپے کے فنڈز  کے معاملات پاکستان پوسٹ آفس کے ساتھ  طےنہیں کیے گئے۔ بی آئی ایس پی نے غربت سکور کارڈ ، وسیلہ تعلیم  اور پارلیمنٹرینز سسٹم   کے تحت ادائیگیوں کیلئے تین ارب 85کروڑ روپے جاری کیے تھے۔ بی آئی ایس پی کے مستحقین کو پاکستان پوسٹ سے جعلی اور غیر قانونی طور پر ادائیگیوں کی کوئی تفصیل بی آئی ایس پی کی انتظامیہ نے آڈٹ حکام کو پیش نہ کی  جبکہ گزشتہ ادائیگیوں کے ایڈجسمنٹ  کے بغیر پاکستان پوسٹ کو مزید ادائیگیاں کی گئیں،71لاکھ روپے کی گریڈ 19کے افسران کو خلاف ضابطہ ادائیگی کی گئی، ہائوس رینٹ کی مد میں ملازمین کو خلاف ضاطبہ 41لاکھ روپے کی ادائیگیاں کی گئیں ، 11لاکھ روپے ایوارڈز اور انکریمنٹس کی مد میں خلاف ضابطہ ادا کیے گئے۔
تازہ ترین