• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے تحریک ِ انصاف کے چیئرمین عمران خان، امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اور دیگر درخواست گزاروں کی پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے دائر کردہ آئینی درخواستوں کی ابتدائی سماعت کے بعد وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف، وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعظم کے خاندان کے مختلف افراد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں دو ہفتوں کے اندر اندر جواب داخل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ عدالت ِ عظمیٰ نے اپنے آفس کو ہدایت کی ہے کہ کیس کو سماعت کے لئے دو ہفتوں کے اندر لگایا جائے جبکہ عدالت نے پاناما لیکس کے معاملےکو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرانے اور 2نومبر کو دھرنا روکنے کے لئے وطن پارٹی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے خارج کردی۔ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے ابتدائی اقدام کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے اپنا نام شامل ہونے کے باوجود کہا ہے کہ میں پاناما پیپرز کے حوالے سپریم کورٹ کی کارروائی کے آغاز کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ انہو ںنے یہ بھی کہا کہ بہتر ہوگا کہ اب عدالتی فیصلے کا انتظار کرلیا جائے۔ اسی طرح عمران خان اور ان کی پارٹی کے دیگر سینئررہنما بارہا عدالت ِ عظمیٰ پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں۔ چیئرمین تحریک ِ انصاف عمران خان کے 2نومبر کو اسلام آباد بند کرنے اور کاروبار ِ حکومت ٹھپ کرنے کے بارے میں بلندبانگ دعوئوں اور اعلانات سے ہر پاکستانی اضطراب و پریشانی کاشکار تھا۔ ادھر حکومت کی طرف سے بھی پاناما لیکس کے معاملے کو حل کرنے کے سلسلے میں کسی پیش رفت کا نہ ہونا عوامی تشویش میں اضافے کا باعث بن رہا تھا۔ اس کنفیوژن کی فضا میں سپریم کورٹ کا ابتدائی فیصلہ نہ صرف روشنی کی کرن ثابت ہوا ہے بلکہ اس اقدام سے واضح راستے کا تعین بھی ہوگیا ہے۔ اب جبکہ عمران خان کی دیرینہ خواہش کے مطابق پاناما لیکس کی سپریم کورٹ میں نہ صرف شنوائی ہوئی ہے بلکہ اس کی باقاعدہ سماعت کا آغاز بھی ہو چکا ہے جس کے بعد اسلام آباد بند کرنے، دھرنے یا عوامی طاقت کے ذریعے وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کرنے کا مطالبہ بے جواز ہو گیاہے۔ایک واضح قانونی و آئینی راستے کی نشاندہی کے بعد اب پاناما لیکس کا فیصلہ سڑکوں، چوکوں،چوراہوں، اخباروں یا ٹی وی اسکرینوں پر نہیں واجب ِصداحترام عدالت ِ عظمیٰ میں ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ کی واضح لائن آف ایکشن کے بعد بھی اگر عمران خان اور ان کی جماعت اسلام آباد کی تالہ بندی پر اصرار کرتی ہے تو اس سے یہ تاثر ابھرے گا کہ عمران خان یہ کارروائی عدالت ِ عظمیٰ پر اثرانداز ہونے کے لئےکر رہے ہیں۔ عدالت ِ عظمیٰ میں پاناما لیکس کے بارے میں سماعت کا آغاز ہونے کے بعد بجاطور پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ اب تحریک ِ انصاف کی حکمت ِعملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئے گی اور یہ جماعت اہل وطن کو یہ خوشگوار پیغام دے گی کہ اب ہم عدالت ِ عظمیٰ کے حتمی فیصلے کاخوشدلی سے انتظار کریں گے۔ تاہم ابھی تک تحریک ِ انصاف کی طرف سے ایساکوئی عندیہ ظاہر نہیں کیا گیا۔عمران خان کو اندازہ ہو گا کہ حساس نوعیت کی اندرونی و بیرونی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت عدالتوں اور ایوانوں کو چھوڑ کر سڑکوں اور چوراہوں پر آنے کو تیار نہیں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کاعمل قابل تقلید ہے جس نے سپریم کورٹ میں میاں نوازشریف اور ان کے دیگر اہل خانہ کے خلاف پاناما لیکس کے حوالے سے د رخواست تو دائر کی ہے مگر وہ سڑکوں پر آنےکو جمہوریت کے لئے انتہائی خطرناک تصور کرتی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلزپارٹی کا بھی یہی موقف ہے۔ تحریک انصاف کو دھرنے اور تالہ بندی کا خطرناک راستہ چھوڑ کر نہایت صبر و سکون کے ساتھ عدالت ِ عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے کہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے یہی درست لائحہ عمل ہے۔

.
تازہ ترین