• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج اگر سراج الحق اٹھ کر لیاقت بلوچ صاحب کی چھٹی کراکرراتوں رات کسی کھرب پتی ہمایوں اختر خان کو جماعت اسلامی کا مختار اور جنرل سیکرٹری بنادیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنا، اپنی شوریٰ بلکہ پوری پارٹی کی مہار ان کے ہاتھ میں دے دیں تو کیا یہ زیادتی اورکرپشن کی بدترین قسم نہیں ہوگی ۔وہ اگرمرکزی امیر کی حیثیت سے خیبر پختونخوا کی کابینہ میں عنایت اللہ خان کی بجائے کسی ایسے شخص کوسینئر وزیر نامزد کرلیں کہ جو گزشتہ حکومت میں حیدر ہوتی کی ٹیم کے، اس سے پہلے پرویز مشرف کی ٹیم کے اور اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی صوبائی کابینہ کے رکن رہے ہوں تو کیا یہ ظلم اور ناانصافی نہیں ہوگی ؟۔ کیا ایساکرنے کے بعد ہمارا میڈیا سراج الحق کا جینا حرام نہیں کرے گا اور کیا اس کے بعد کوئی ذی شعور شخص ان سے انقلاب کی توقع لگائے بیٹھے گا اورکیا اس کے بعد فرینڈلی انٹرویوز کرا کراکرپاکستان میڈیا ان کو جبراً قوم کے سروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا؟۔ لیکن عجیب تماشہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ’’بدتمیز جمہوریہ سوشل میڈیا‘‘ کی سلطنت کے وزیراعظم ،انقلابی اور پاک صاف باورکرائے جارہے ہیںجبکہ سراج الحق کی طرف کوئی توجہ نہیں دلارہا۔ چلو مان لیتے ہیں کہ بدتمیز جمہوریہ سوشل میڈیا کے یہ وزیراعظم ذاتی طور پر کرپٹ نہیں لیکن کیا سراج الحق کرپٹ ہیں؟ ۔ ان کے تو دشمن بھی گواہی دیتے ہیں کہ وہ مالی تو کیااخلاقی طور پربھی کرپٹ نہیں ۔ وزیر بننے کے بعد ان کی ذاتی اور خاندانی زندگی میں کوئی فرق آیا اور نہ امیر بننے کے بعد۔اگر ذاتی کرپٹ نہ ہونا ہی سیاسی لیڈر کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے تو پھرسراج الحق کے کیوں معاف نہیں کئے جاتے اور پھر کرپشن سے پریشان ان انقلابیوں نے جماعت اسلامی کو اپنی امیدوں کا مرکز کیوں نہیں بنایا؟۔بدتمیز جمہوریہ سوشل میڈیا کے وزیراعظم اور ریٹنگ کا غلام الیکٹرانک میڈیا کے پاپولر ترین لیڈر کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ماہرین اور اہل لوگوں کی ٹیم ہے،لیکن اس ٹیم کی حقیقت خیبر پختونخوا کی حکومت کی صورت میں دنیا پر آشکارا ہوگئی۔ اس پوری ٹیم میں اہلیت اور دیانتداری کے حوالے سے جماعت اسلامی کے عنایت اللہ خان نمبرون قرار پائے ۔ نہ کرپشن کا کوئی الزام اور نہ دامن پر کسی قانون شکنی کا دھبہ ۔ سوشل میڈیا کے مجاہدین پشاور کی خوبصورتی اور بلدیاتی نظام کا بڑا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کرتے کہ یہ کام جماعت اسلامی کے وزیربلدیات عنایت اللہ خان کا ہے ۔ پھر تبدیلی کے ان آرزومندوں کا انتخاب ، اُس جماعت کی بجائے جماعت اسلامی کیوں نہیں ؟۔ کہتے ہیں کہ بدتمیز جمہوریہ سوشل میڈیا کے وزیراعظم کو پاکستان کا وزیراعظم اس لئے بنانا چاہئے کیونکہ انہوںنے لوگوں کے پیسوں سےاسپتال بنایا ہے لیکن یہی معیار ہے تو پھر تو جماعت اسلامی کی الخدمت تنظیم ملک بھر میں سینکڑوںاسپتال بنا اور چلارہی ہے اور لاکھوں لوگ ان کی خدمت سے مستفید ہورہے ہیں ۔ 2005ء کا زلزلہ ہو ، چترال میں بارشوں کی تباہی ہو یا پھر وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی خدمت ، ہر جگہ الخدمت نمایاں نظر آتی ہے ۔ پھر کیوں نہ سراج الحق کو وزیراعظم بنایا جائے ؟۔ دلیل دیتے ہیں کہ نئی نسل زرداری اور نواز شریف سے مایوس ہوچکی ہے اور ان کی اکثریت سوشل میڈیا کے وزیراعظم کو اپنا لیڈر مانتی ہے حالانکہ لیڈر ماننے اور فین فالونگ (Fan Following) میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔ کسی جگہ شاہد آفریدی عام جلسے سے خطاب کے لئے آئیں تو لگ پتہ جائے گا کہ کتنے لوگ اکھٹے ہوتے ہیں ۔ پھر اگر ان کے ساتھ وہاں راحت فتح علی خان کی موسیقی اور صبا قمر کی دید کی نویدبھی سنادی جائے تو مجھے یقین ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوگی ۔ جہاں تک نوجوانوں کی قیادت کا تعلق ہے تو یہ تو ہر حامی و مخالف تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑی ملک گیر تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ ہے ۔کوئی دوسری طلبہ تنظیم نہ تو اتنی منظم ہے اور نہ اتنے جوان جمع کرسکتی ہے جس طرح وہ سالانہ اجتماع عام کی صورت میں جمع کرتی ہے ۔ یہ تنظیم کسی اور کو نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے ۔ مثالیں طیب ایردوان کی دی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ طیب ایردوان بنیادی طور پرجماعت اسلامی کی سوچ کے آدمی ہیں ۔وہ گلبدین حکمت یار کی زیرقیادت افغان جہاد میں حصہ لے چکے ہیں اور اپنے آپ کو پاکستان کے اندر نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے جوڑتے ہیں ۔پھر پاکستان کا طیب ایردوان بننے کی امید کسی اور کی بجائے سراج الحق سے کیوں نہ وابستہ کی جائے؟۔ پلڈاٹ (PILDAT) ،مغربی ممالک کے تعاون سے جمہوریت کے فروغ کے لئے کام کرنے والا مستند تھنک ٹینک ہے ، ہر سال اپنی رپورٹ میں جماعت اسلامی کو پارٹی کے اندر جمہوریت کے لحاظ سے سب سے بہترین پارٹی قرار دیتی ہے ۔ ابھی کل ہی اس نے پارلیمانی سال 2015-16 کی کارکردگی رپورٹ جاری کی ہے جس میںقومی اسمبلی کے اندر ممبران کی حاضری اور دیگر کارکردگی کے حساب سے جماعت اسلامی کو سب سے بہتر جبکہ پی ٹی آئی کو بدتر جماعت قرار دیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان سب کچھ کے باوجود جماعت اسلامی کیوں نظرانداز کی جارہی ہے اور میڈیا پر صرف ایک مخصوص جماعت کا غلغلہ کیوںہے ؟۔ دعویٰ کیا جاتا ہے سیاست کے اندر وراثت کی ناپاک روایت کے خاتمے کا ۔ اب جب بچے پاکستان میں ہی نہیں تو کس کو عہدے دلوادیں ۔ نچلی سطح پر دیکھیں تو معاملہ وہی پی پی پی اور مسلم لیگ والا ہے لیکن کسی جماعت میں اس خباثت کا شائبہ تک نہیںتو وہ جماعت اسلامی ہے ۔ ایسا نہیں کہ مولانا مودودی کی اولاد نہیں تھی یا منور حسن اور قاضی حسین خاکم بدہن لاوارث تھے لیکن یہاں کبھی کراچی کے فقیر منور حسن امیر بن جاتے ہیں اور کبھی افغانستان کی سرحد سے متصل مسکینی گائوں کے غریب سراج الحق امیر کے سر پر امارت کا تاج رکھ دیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیوں ایک مخصوص شخص کو زرداری اور نوازشریف کے مقابلے میں واحد آپشن قرار دیا جارہا ہے اور سراج الحق کو نہیں ۔ ان کا تو نہ میاں نوازشریف سے مک مکا ہے اور نہ آصف زرداری کے ساتھ ۔ ان کا نام تو نہ پاناما میں آیا ہے اور نہ ان کے اردگرد آف شور اکائونٹس رکھنے والے دوسری طرح کے کرپٹ کھڑے ہوتے ہیں ۔ نہ تو ان کے اثاثے بیرون ملک ہیں اور نہ بچے لندن میں ہیں ۔تو پھرکیا سراج الحق کو یہ مقام اس لئے نہیں دیا جارہا کہ ان کی داڑھی ہے ،یا اس لئے کہ وہ تقریر کرتے وقت گالم گلوچ سے کام نہیں لیتے ، یا اس لئے کہ وہ مخصوص قوتوں کا آلہ کار بننےکی بجائے آئین اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔ جلسے اور جلوسوں میں بھی تو جماعت اسلامی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن کیا وہ میڈیا کی توجہ اس لئے حاصل نہیں کرپاتے کہ ان میں ناچ گانے کی بجائے قال اللہ اور قال الرسولﷺ پر زور دیا جاتا ہے ۔یا اس توجہ کے لئے ضروری ہے کہ جماعت اسلامی کے اجتماعات اور جلسوں ، جہاں شرکت کے باوجود خواتین کو احترام ملتا ہے ، میں بھی خواتین کے ساتھ بدتمیزیاں شروع ہوجائیں ۔ اس تجزیے اور تقابل کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ سراج الحق کی ذات اور ان کی جماعت خامیوں سے پاک ہے۔ میں نے ان کی ذات پر مسلسل تنقید کی ہے اور کرتا رہوں گا ۔جماعت اسلامی کی ساخت سے بھی اور پالیسیوں سے اختلاف کیا ہے اورمزید شدت کے ساتھ کرتا رہوں گا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتا کہ جماعت کی موجودہ قیادت اصلاح کی بھرپورکوشش کررہی ہے ۔ تشویش مجھے اس بات کی ہے کہ پاکستان کا لبرل میڈیا اپنے رویے سے جماعت اسلامی کو یہ سبق دے رہا ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بجائے تشدد اور دھرنوں کی طرف مائل ہوجائے ۔ یا پھر ماضی کی طرح دوبارہ مخصوص قوتوں کا مہرہ بننے پر آمادہ ہوجائے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی جماعتیں دھرنوں پر اتر آئیں تو ہم کلین شیوڈ، اسکرپٹڈ اور مخلوط دھرنوں کو بھول جائیں گے اور اگر انہوں نے قانون ہاتھ میں لے کر شہروں کو بند کرنے کی ٹھان لی تو پھر لوگ دیکھ لیں گے کہ شہر کیسے بند کئے جاتے ہیں۔ آخر کچھ تو انصاف سے کام لینا چاہئے۔


.
تازہ ترین